انسانی تاریخ کے دو بدنصیب ہمسائے ایک بار پھر جنگ کے
دہانے پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے علاقے پہلگام میں پیش آنے والے دہشت
گردانہ واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان پر حسبِ روایت الزام تراشی کی اور
سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کر کے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کا پانی
روکنے کی دھمکی دے ڈالی۔ دو ایٹمی ریاستیں ایک بار پھر اپنے ہی عوام کے خون
سے اقتدار کی شمع جلانے کو بےتاب دکھائی دیتی ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف میڈیا
اور سوشل میڈیا پر جنگ کے نعرے، نفرت انگیزی، اور قومی حمیت کے نام پر
جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ عوام کو بہادری اور غیرت کے نام پر مرنے کے لیے
تیار کیا جا رہا ہے، جبکہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سازشی دماغ اپنی
کرسیوں کو مضبوط کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
یہ جنگ اسلام اور ہندوازم کی جنگ نہیں ہے۔ یہ دو کرپٹ نظاموں کی وہ سازش ہے
جس کے تحت عوام کو مذہب، قومیت اور وطن پرستی کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف
صف آراء کر کے اپنے اقتدار اور کرپشن کو دوام دیا جا رہا ہے۔ نہ ایٹم بم
مذہب کا لحاظ کرے گا، نہ زبان کا، نہ نسل کا۔ جب ہلاکت نازل ہو گی تو سب
مٹی کے ڈھیر بن جائیں گے۔ نہ ممبئی بچے گی، نہ لاہور۔ نہ دہلی کی اذانیں
رہیں گی، نہ کراچی کے مندر۔
اعداد و شمار کی زبان میں دیکھیے تو پاکستان کی آبادی 250 ملین ہے، جہاں
غربت کی شرح 39 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت کی آبادی 1.4 ارب ہے اور وہاں
بھی تقریباً 30 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
دونوں ممالک کے شہری بنیادی تعلیم، علاج معالجہ اور انصاف جیسی بنیادی
سہولتوں سے محروم ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی بمشکل 59 فیصد ہے اور بھارت
میں 77 فیصد۔ صحت کی سہولیات کا حال یہ ہے کہ پاکستان میں 1000 افراد کے
لیے بمشکل 1.2 ڈاکٹر موجود ہے اور بھارت میں یہ تناسب اور بھی خوفناک 1000
افراد کے لیے محض 0.7 ہے۔ علاج معالجے کا خرچ ان ملکوں میں دنیا کے کئی
ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ ہے مگر معیاری سہولت ناپید ہے۔
دونوں ریاستیں دفاعی بجٹ کے نشے میں دھت ہیں۔ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 1.7
فیصد دفاع پر اڑا دیتا ہے، جبکہ بھارت 1.9 فیصد۔ بھارت نے 2024-25 کے بجٹ
میں 6.81 لاکھ کروڑ روپے دفاع پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ پاکستان نے
2,122 ارب روپے۔ یہ وہی دونوں ریاستیں ہیں جہاں کروڑوں بچے اسکول کی دہلیز
تک نہیں پہنچ پاتے، جہاں حاملہ عورتیں اسپتال کی سیڑھیوں پر دم توڑتی ہیں،
جہاں مزدور بچوں کے جسم پر بھوک کا نشان بنا کر ان کو زندگی کے بازار میں
فروخت کر دیا جاتا ہے۔
انصاف کا حال اس سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ بھارت کی عدالتوں میں 31 ملین
مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ ایک عام مقدمے کو نمٹانے میں کم از کم 10 سے 15
سال لگتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تاخیر بعض اوقات ایک نسل کو ختم کر دیتی ہے۔
انصاف صرف طاقتور کے لیے ہے۔ غریب آدمی کے لیے عدالتیں صرف تاریخ پر تاریخ
کا نوحہ سنانے والی اندھی گلیاں بن چکی ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کو انصاف
ملنے کا خواب بھی اب تعیش بن چکا ہے۔
ان دو معاشروں میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری، صحت، تعلیم اور انصاف کے
مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک اربوں ڈالر ہتھیاروں پر لٹاتے ہیں مگر
بچوں کو کتاب اور دوا فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ بھارت میں فی کس آمدنی
تقریباً 2,400 ڈالر ہے، جبکہ پاکستان میں یہ بمشکل 1,500 ڈالر تک پہنچتی
ہے۔ دونوں ممالک کا عالمی خوشحالی انڈیکس میں نمبر اتنا نیچے ہے کہ کئی
افریقی ممالک بھی ان سے آگے نکل چکے ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود عوام کو جنگ کے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ ان کی حب
الوطنی کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ ان کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے جا رہے
ہیں۔ یہ وہی عوام ہیں جو دنیا بھر میں جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کے دکھ درد
بانٹتے ہیں۔ دنیا کی کسی بھی گلی، کسی بھی شہر میں پاکستانی اور بھارتی مل
بیٹھیں تو تیسری قوم کے لیے ان میں فرق کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہ ایک ہی مٹی
کے بیٹے ہیں، ایک جیسی ثقافت، ایک جیسا کھانا، ایک جیسا لباس، ایک جیسا
مزاج۔ مگر ان کی زمینوں پر بیٹھی اجارہ داریاں ان کو دست و گریباں دیکھنا
چاہتی ہیں۔
اصل دشمن سرحد پار نہیں ہے، دشمن ہمارے اندر بیٹھا ہے۔ وہ کرپٹ حکمران، وہ
مفاد پرست سیاستدان، وہ سازشی جرنیل، جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے کروڑوں
جانوں کو داؤ پر لگانے پر تیار بیٹھے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم انہیں یہ بتائیں
کہ ہم ان کی جنگ کے ایندھن نہیں بنیں گے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی بندوقوں کا
رخ غربت، جہالت، بےانصافی اور کرپشن کی طرف موڑیں۔
ورنہ جب ایٹمی شعلے بھڑکیں گے تو نہ کوئی مسلمان بچے گا، نہ ہندو؛ نہ کوئی
پاکستانی رہے گا، نہ بھارتی — رہے گی تو صرف انسانیت کی لاش، اور اس لاش پر
رقص کرتی ان حکمران اشرافیہ کی مردہ روحیں، جن کے جھوٹ پر ہم نے ایمان لا
کر اپنی دنیا برباد کر لی۔
|