آج سے تقریباً ساڑھے تین سال قبل
جمہوری جدوجہد اور نام نہاد انقلاب کے بعد قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی
حکومت پر پاکستان کے بے بس ، مجبور،لاچاراور اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کی
سا نسوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے والی عوام نے ہر طرح کی فکر سے آزاد ہو
کر اور صحرا کے بے سمت راستوں کی ماند بھٹکتے ہوئے مستقبل کو بہتر ی و
روشنی کی جانب گامزن دیکھ کر زبردست خوشی منائی ، مٹھائیاں تقسیم کی گئی
نذرانے دئیے گئے صدقے کیئے گئے پورے ملک کے اندر پوری قوم کے چہرے خوشی سے
کھل اٹھے لیکن آج وہ تمام صدقے مٹھائیاں اور خوشیاں ہر گھر کے اندر ماتم کی
صورت اختیار کر چکی ہیں ماتم کا سماں ایک گھر کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ
ماتم کے قصے گھر گھر کے قصے بن گئے ہیں ہر گھر کی دہلیز پرخوشیوں کی دستک
کی بجائے خود کش حملوں ، ڈراﺅن حملوں ، بم دھماکوں، ذخیرہ اندوزی کے نتیجے
میں پیدا ہونے والی مہنگائی ،حکومتی عدم استحکام کے باعث اور حکومتی کمزور
پالیسیوں کے باعث آئے روز اشیاءخوردنوش اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
ہونے والے بے پناہ اضافے کے نتیجے میں خودکشی کی دستک آرہی ہے لاقانونیت کے
نتیجے میں ذاتی مفادات کو تحفظ دینے والی مفاہمتی پالیسی کے نام سے تیار
بندوق جو تقریبا ً ہر غرض مند سیاستدان نے اپنے سیاسی کارندوں کو بغیر
لائسنس کے دے رکھی ہے اس کی آندھی گولی کا شکار بے قصور لوگ آئے روز درجنوں
کی تعداد میں ہو رہے ہیں جیسے کوئی مچھلیوں کا شکار کر رہا ہو حالانکہ
مچھلیوں کا شکار بھی قانون قاعدے کے مطابق جال پھینک کر کیا جاتا ہے اس کے
برعکس جس طرح پاکستان کے اندر انسانی جانوں کا شکار کیا جا رہا ہے اس کی
بدترین مثال شاید ہی کوئی شکاری دے سکے دیکھئے پاکستان کے عوام نے ہمیشہ
جمہوری قوتوں اور جمہوری اصولوں کا ساتھ دیا لیکن ملک کے اندر جب بھی آمریت
آئی خود کرپٹ اور بدیانت سیاستدانوں کے بنائے ہوئے راستوں پر چل کرآئیں
لیکن اس کے باوجود آمریت نے قوم کو مایوس نہیں کیا جنرل ضیالحق کے متعلق
خرابیوں کے لاتعداد ثبوت یقینا آج کے مفاداتی سیاستدانوں کے پاس موجود ہو
نگے مگر اس آمر کے 11سالہ 9ماہ اور29دنوں پر محیط دور اقتدار کا جب خاتمہ
ہوا تو اس وقت بھی اشیاءخوردنوش اور پٹرولیم مصنوعات کی تقریباً وہی
قیمتیںتھیں جوجنرل ضیا الحق مرحوم کے دور اقتدار کے آغاز میں تھیں پھر جنرل
ایوب کو دیکھ لیں انہوں نے جب ذخیر اندوزوں کیخلاف ایکشن لیا تو پورے
پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں پر چینی اور گھی نظر آرہا تھا اسی طرح کی دیگر
مثالیں بھی تاریخ کے اوراق پر آج بھی موجود ہیں ہاں ایک بات ہے کہ آمریت سے
ملکی سلامتی ، بقاء،اور تحفظ کو نقصان نہیں ہوا البتہ مفاہمتی اور ذاتی
مفادات والی سیاست کو فوراً نقصان پہنچا،آج کیا وجہ ہے کہ بجلی اور گیس تک
عوام کی پہنچ کو ہی ناممکن بنا دیا گیا ہے حالانہ پاکستان کے اندر بجلی اور
گیس دوونوں وافر مقدار میں موجود ہیں آئے روز بجلی اور گیس کی قیمتوں میں
اضافہ کرنے کی بجائے حکمران اپنے غیر ضروری اور بالکل غیر ضروری اخراجات کو
کم کیوں نہیں کررہے؟ کیا صرف100کلو میٹر کا سفر ایک لاکھ پچاس ہزار روپے
خرچ کیئے بغیرایک وزیر ممکن نہیں بنا سکتااور اگر یہ ممکن ہو جائے تو دن کو
سینکڑوں منسٹروں کے اندون ملک اوراندرون شہراٹھنے والے کروڑوں روپے کے
اخراجات کو بچایا جا سکتا ہے ۔ہے نہ۔۔۔۔۔بجلی کو مہنگا در مہنگا کرنے کی
بجائے کیا ہی اچھا ہو کہ سفید کالروں میں چھپے سفید پوش بجلی چوروں کو پکڑا
جائے اور بجلی کے استعمال کے مطابق ہر کسی سے بلا امتیاز بل وصول کیئے
جائیں واپڈا کے ایک عام اندازے کے مطابق ہر ماہ صرف 60فیصد بجلی کے بل وصول
ہوئے ہیں باقی 40فیصد بجلی کو یا چوری کر لیا جاتا ہے یا بل ہی نہیں دیئے
جاتے ان من جملہ خرابیوں اور بیماریوں کو دور کرنے کی بجائے اگرہم قوم پر
ہی بوجھ ڈالیں گے تو قوم کدھر جائے گی امر واقع یہ ہے کہ ایک آدمی ایک بجلی
کا بل تو دور کی بات ایک وقت کی روٹی پوری کرنے سے قاصر ہے اوپر سے ملکی
معاشی نظام بھی کچھ اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ ایک آدمی 10آدمیوں کی
کفالت کر رہا ہے یقینا ملک کے اندر جرائم ،رشوت خوری، خود کشیوں ، ڈکیتیوں
اور قتل و غارت کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے بے روزگاری اور کم آمدن ہے ہمارے
حکمران قومی آمدن میں اضافے کی بجائے کم کرنے کے در پے ہے خود عیاشیوں میں
مصروف، یقینا ملک کی موجودہ صورتحال فوجی حکمران کی حکمرانی کو آواز دے رہی
ہے واقفان حال کے مطابق قوم فوجی حکمران کے انتظار میں ہے۔۔۔۔ |