اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دُعا

اس سے متعلق بعض طبقات کی سوچ اور طرزِ عمل افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے اِس کے جواز کا ہی قائل نہیں بلکہ اِسے صریح شرک و بدعت گردانتا ہے۔ اِس کے برعکس ایک طبقہ عوام الناس کا ہے جسے اہلِ علم کی سند حاصل نہیں وہ بھی اِس سلسلہ میں جہالت اور تفریط میں مبتلا ہے۔ جمہور مسلمانوں کا مزارات پر طریقِ حاضری و دُعا نہایت معقول اور حزم و احتیاط کا آئینہ دار ہے۔ قاضی الحاجات، فریاد رس اور حقیقی مشکل کشا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن مقربینِ بارگاہِ الٰہی انبیاء و اولیاء کا دُعا میں توسل جائز ہے اور اِن کے توسل سے دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اِس سلسلہ میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیںقبورِ اولیاء کی زیارات کے آداب میں سے ہے کہ زائر قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی جانب پیٹھ کر کے صاحبِ قبر کے منہ کے برابر کھڑا ہو جائے، اُسے سلام کہے، ہاتھ سے قبر کو نہ چھوئے اور نہ قبر کو بوسہ دے اور نہ قبر کے سامنے جھکے اور قبر کے سامنے مٹی پر اپنا منہ نہ ملے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے۔ قبر کے پاس قرآن حکیم کی تلاوت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک (بآوازِ بلند) مکروہ ہے، مگر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ علمائِ احناف میں سے صدر الشہید نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو اختیار کیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے۔ شیخ امام محمد بن الفضل نے کہا ہے کہ قبر کے نزدیک اُونچی آواز میں قرآن خوانی مکروہ ہے، لیکن اگر دھیمی آواز میں ہو تو سارا قرآن مجید پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ صالحینِ اُمت کے مزارات کو بوسہ دینا ضروری اُمور میں سے نہیں ہے لہٰذا اس عمل کو منکرین و مخالفین کے ردِعمل میں بے ادبی اور گستاخی سمجھنا اچھا نہیں ہے۔ اکابر مشائخ کے ملفوظات اور اُن کے معمولات میں احتیاط پسندی کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں بہتر یہی ہے کہ اربابِ علم اور رہنمایانِ قوم میں سے کوئی آدمی مزارات کا بوسہ نہ لے تاکہ دیکھا دیکھی میں بے علم اور عام اَن پڑھ لوگ گمراہی کے بھنور میں نہ پھنس جائیں۔ کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے بوسہ اور سجدہ میں تمیز نہیں کر سکتے۔
تعظیماً بوسہ دینا فی نفسہ منع اور ناجائز نہیں ہے۔ اکابر علماء و مشائخ نے صرف احتیاط کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواص کا عمل عامۃ الناس کے لئے دلیل و حجت ہوتا ہے اِس لئے خواص کو بطورِ خاص احتیاط کا دامن تھامنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ خواص تو بوسہ اور سجدہ کا فرق بخوبی سمجھتے ہیں لیکن عوام یہ فرق نہیں سمجھتے اِس لئے عوام کی خاطر انہیں بھی منع کیا گیا ہے۔
سلف صالحین نے قبورِ اولیاء پر حاضری دینے والے زائرین اور دُعا کرنے والوں کے لئے دو طریقے بیان کئے ہیں :
1۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کا محتاج اور فقیر ہے اور اپنی حاجت اللہ تعالیٰ سے طلب کرتا ہے، مگر دُعا میں صاحبِ مزار کی روحانیت، بزرگی اور اُس کی خدماتِ جلیلہ کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ ’’اے میرے مولا! اِس صاحبِ مزار کی برکت سے اور اُس رحمت و عنایت کے صدقے جو تو نے اس صاحب مزار پر کی ہے اور اسے عظمت و بزرگی عطا فرمائی ہے، میری فلاں حاجت کو پورا فرما، کیونکہ حقیقی عطا کرنے والا اور مرادیں پوری کرنے والا تو ہے۔
2۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دعا مانگنے والا صاحبِ مزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہے کہ ’’اے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے! میری فلاں مراد اللہ تعالیٰ سے طلب کیجئے، اللہ تعالیٰ مجھے میری مطلوب شے عطا کر دے۔‘‘ اِس طرح بھی سوال اللہ تعالیٰ ہی سے کیا جاتا ہے کیونکہ حقیقی مشکل کشا وہی ذات ہے، لیکن یہ اسلوب اختیار کرنا بطریقِ مجاز ہے جس کے تحت صاحبِ قبر کو بطور وسیلہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی اِس لئے جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ جسے چاہے اس کی التجا سنوا دے کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی قبر والا ہو یا زندہ چلتا پھرتا انسان، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے بغیر نہیں سن سکتا۔ یہ امر بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کرنے والے کی آواز کو قبر والے تک پہنچا دے اور پھر صاحبِ قبر عالمِ ارواح میں اللہ تعالیٰ سے اُس حاجت مند کے مقاصد کو پورا کر دینے کی التجا کرے۔ اِس طریقے میں بھی حاجت مند بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی سے مانگ رہا ہوتا ہے نہ کے صاحبِ قبر سے۔
کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی مقام یا قبر کا طوافِ تعظیمی منع ہے۔ فقہائے کرام نے قبرستان میں خیرات اور شیرینی تقسیم کرنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ تقسیم کے وقت بچے اور عورتیں شور و غل کرتے ہیں۔ قبرستان کا ادب و احترام قائم نہیں رہتا لہٰذا ایسا کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ مساکین اور زائرین کے لئے مزارات پر الگ اہتمام ہونا چاہیے۔ مقبولانِ بارگاہِ خداوندی کے اعراس میں جو ناجائز افعال و اعمال کئے جاتے ہیں اِن سے صاحبِ مزار کو تکلیف و اذیت پہنچتی ہے۔ اِس طرح صاحبِ مزار کا فیض اور برکت زائر کو نصیب نہیں ہوتی۔ خیرات کی چیزیں اُوپر سے پھینکنا اور لوگوں کا اُن کو بطور تبرک حاصل کرنے کے لئے شور و غل کرنا، ایسے تمام اُمور غلط ہیں اور سلف صالحین نے اِن کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس طرزِ عمل سے ایک تو رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے، دوسرا مزار کا ماحول اور اُس کا تقدس پامال ہوتا ہے اور تیسرا اِس میںریاکاری کا عمل دخل ہے۔ لہٰذا ایسے تمام اُمور سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مزاراتِ اولیاء پر نذر و نیاز دینے اور وہاں ’’لنگر‘‘ پکانے یا کھانے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ ایک نیک عمل ہے جس کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ یہ صدقہ جاریہ کی ایک مستحسن صورت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو نواز رکھا ہے۔ ’’اطعام الطعام‘‘ تعلیمات قرآن و سنت کی معروف اصطلاح اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ سورۃ الدھر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مخلص بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں جن میں ضرورت مندوں اور ناداروں کو کھانا کھلانا بنیادی خصوصیت قرار دیا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اوراللہ کی محبت پرکھانا کھلاتے ہیںمسکین اور یتیم اور مقید کو (ان سے کہتے ہیں)بیشک ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کی خاطر کھانا کھلاتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یاشکرگزاری نہیں چاہتے بیشک ہمیں اپنے رب سے ایسے دن کا ڈر ہے جوسخت مصبیت کانہایت طویل دن ہوگا سورہ دہر آیت مبارکہ 8 - 10
(ترجمعہ دستور حق از محدث ہزاروی قدس سرہ العزیز) یہ کام اہل اﷲ کے نزدیک نفلی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا نمایاں وصف ہے اور اسوۂ حسنہ کے اتباع میں تمام صوفیاء کا معمول رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود یتیموں، مسکینوں اور ناداروں کا سہارا اور ملجا تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے سوال کیا : بہترین اسلام کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو کھانا کھلائے اور سلام کرے اس شخص کوجس کو تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی بجا آوری سے میں جنت کا حق دار ٹھہر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ، سلام (سلامتی اور خیر خواہی) کو عام کرو، صلہ رحمی کرو اور دوسرے لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں تو تم اٹھ کر نماز (تہجد) پڑھا کرو (ان اعمال کے باعث تم) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو اول کلام جو میں نے ان سے سنا وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’لوگو! سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ اور جب لوگ سو رہے ہوں، نماز پڑھو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اطعام الطعام کو اﷲ کی عبادت کا ہم پلہ عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’تم رحمٰن کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو ان تین امور کی انجام دہی کے ثمر کے طور پر تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ برصغیر پاک و ہند میں ایسے مزارات بکثرت موجود ہیں مثلاً سیدنا علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا صاحب رضی اللہ عنہ،حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر رضی اللہ عنہ پاک پتن شریف، خواجہ ھند حضرت معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرضی اللہ عنہ،حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی رضی اللہ عنہ،حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد فاروقی سرہندی رضی اللہ عنہ حضرت خواجہ نورمحمدمہاروی رضی اللہ عنہ،حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی رضی اللہ عنہ تونسہ شریف، حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی رضی اللہ عنہ سیال شریف،حضرت خواجہ سید محبوب علی شاہ کاظمی چشتی رضی اللہ عنہ خانقاہ محبوب آباد حویلیاں شریف ایبٹ آباد کے سجادہ نشین پیرسید محی الدین شاہ محبوب کاظمی قادری حنفی نے ملک بھر کے علاوہ بیرون ممالک اپنے خلفائ اور مریدین کو بھی اس کی ہدایت جاری کر رکھی ہوئی ہے،دربار بادشاہاں خوشاب،دربار پیرالسید یوسف الگیلانی بغدادی پھلروان شریف بھلوال،خانقاہ حمیدیہ آستانہ عالیہ مکان شریف کفری وادی سون خوشاب،پیرسید مہرعلی شاہ گولڑہ شریف اسلام آباد،دربار شیخ المعرفت حضرت خواجہ حافظ شیخ اکبردین رضی اللہ عنہ اوگالی شریف وادی سون خوشاب،دربار ہو بہو سرکار اولاد غوث پاک کلرکہار چکوال،بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح کے سینکڑوں مراکز اور مقامات ہیں جہاں آج بھی ہزاروں اور لاکھوں ایسے لوگ کھانا کھاتے ہیں جو بے روزگار اور بے سہارا ہوتے ہیں۔ غریب اور یتیم بچے، عورتیں، بوڑھے اور بیمار، سب بلاتمیز رنگ و نسل، عقیدہ و مذہب ان آستانوں پر آزادانہ کھاتے پیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت داتا صاحب کے احاطۂ مزار میں ہر روز تیس سےچالیس ہزار لوگ مختلف شکلوں میں ’’لنگر‘‘ سے کھانا حاصل کرتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بھوکوں، بے روزگاروں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلانا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی خصوصی عطاء سے ہی ممکن ہے ورنہ دنیا کا کوئی بادشاہ، دولت مند شخص یا تنظیم ایسا کرنے کی صلاحیت و قدرت نہیں رکھتی۔ پھر یہ سلسلہ دو چار دنوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ ایسے نیک اور خدمتِ خلق پر مبنی عمل کو بلاسوچے سمجھے شرک و بدعت اور حرام کہنا بجائے خود بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ اوپر ہم عرض کر چکے ہیں کہ یہ ’’اطعام الطعام‘‘ کے فرمانِ الٰہی پر عمل درآمد کی ایک بہترین شکل ہے۔ جائز مشروع اور مخلوقِ خدا کیلئے مفید عمل کو بلادلیل ناجائز عمل کہنا دراصل دین میں تجاوز ہے۔ یہ ایک طرف کی سوچ اور نقطۂ نظر ہے۔ دوسری طرف اس سے بھی زیادہ قباحتیں موجود ہیں۔ کہیں اس کی شفا کے مبالغہ آمیز تذکرے کیے جاتے ہیں، کہیں اس کے عدمِ استعمال پر انجام بد سے ڈرایا جاتا ہے اور کسی جگہ کا لنگر ہر گناہ اور معصیت سے چھٹکارے کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ بزرگانِ دین کے مزارات اور ان کی قربت بلاشبہ باعثِ خیر و برکت ہے اور ان کے آستانوں پر توسلاً اللہ پاک بیماروں کو شفا بھی دیتا ہے بعض مقامات اور مزارات پر اس نیک عمل کو بے جا پابندیوں اور اضافی شرطوں سے خاص کردیا جاتا ہے مثلاً شیرینی کے ساتھ مختلف تحریریں لکھ دی جاتی ہیں جن کے ذریعے زائرین پر نفسیاتی طور پر ترغیب و ترھیب سے اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ’’یہ کھانے سے اتنے پھیرے اور اسی طرح کی نیاز کی مزید تقسیم ضروری ہے۔ یہ سب رسوم و رواج جہالت اور مزارات کے غلط استعمال کی مختلف شکلیں ہیں ایسی قباحتوں سے صاحبِ مزار کو یقینا تکلیف پہنچتی ہے اس لئے ایسے امور سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عرس کی شیرینی کھانے کے فضائل بیان کرنے اور نہ کھانے والے کو محروم سمجھے جانے کی کوئی اصل نہیں ہے۔

اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ عرس کی شیرینی کے متعلق یہ کہنا کہ جوکوئی اِس کو کھائے گا اُس کا جنت مقام و دوزخ حرام ہے یہ کہنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟

انہوں نے جواب دیا : ’’یہ کہنا جزاف اور یاوہ گوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا جنت مقام اور کس پر دوزخ حرام ہے۔ عرس کی شیرینی کھانے پر اللہ و رسول کا کوئی وعدہ ایسا نہیں ثابت جس کے بھروسہ پر یہ حکم لگا سکیں۔ یہ تقول علی اﷲ کے مترادف ہے اور وہ ناجائز ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وہ غیب پر مطلع ہے یا اس نے (خدائے) رحمن سے (کوئی) عہد لے رکھاہے؟ (اسی طرح) اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے۔‘‘

احمد رضا خان، فتاویٰ رضويه، 4 : 219
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381726 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.