کلمات توسل میں احتیاط اور سجدہ
تعظیمی کی ممانعت تحریر پیر محمدامیرسلطان چشتی قادری اوگالی شریف
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے مزارات پر فاتحہ
کے طریقہ کے متعلق پوچھا گیا کہ ’’بزرگوں کے مزارپر جائیں تو فاتحہ کس طرح
سے پڑھا کریں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’مزاراتِ شریفہ پر حاضر ہونے میں
پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلہ پر مواجہہ میں کھڑا
ہو اور متوسط آواز میں مودِبانہ سلام کرے۔ ختم وغیرہ پڑھ کر اللہ عزوجل سے
دعا کرے کہ الٰہی اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ
اِتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اِسے میری طرف سے اِس بندہ مقبول کو نذر
پہنچا۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دُعا کرے اور صاحبِ مزار
کی رُوح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے۔ پھر اُسی طرح
سلام کر کے واپس آئے۔ مزار کو ہاتھ نہ لگائے، نہ بوسہ دے۔ طواف بالاتفاق
ناجائز ہے جبکہ سجدہ حرام ہے احمد رضا خان، فتاویٰ رضويه، 4 : 212
غیر اللہ کو سجدۂ عبادت کھلا کفر ہے اور سجدۂ تعظیمی حرام ہے بلکہ ایسا عمل
بھی ممنوع ہے جو سجدہ کی سی مشابہت رکھتا ہو وہ بھی مزارات پر نہیں کرنا
چاہیے۔
حضرت ابو مرثد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
’’قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ اُن پر بیٹھو۔‘‘
مسلم شریف، کتاب الجنائز، باب النهی عن الجلوس علی القبر، 2 : 668، رقم :
972
سج عامۃ الناس میں سے بعض لوگ مزارات کو بوسہ دیتے اور چوکھٹ چومتے ہیںیہ
شرک کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین بوسی حقیقتاً سجدہ
نہیں کیونکہ سجدہ میں سات اعضاء کا بیک وقت زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں
زمین بوسی اِس وجہ سے ممنوع ہے کہ مشابہتًا بت پرستی اور صورۃً قریبِ سجدہ
ہے۔ حقیقتاً سجدہ نہ سہی پھر بھی منع ہے۔ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی مولانا
احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اِس مسئلہ پر باقاعدہ الگ کتاب ’’الزبدۃ
الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ‘‘ لکھی ہے جس میں انہوں نے ٹھوس دلائل سے سجدۂ
تعظیمی اور خلافِ شرع اُمور کی تردید فرمائی ہے۔ |