اسٹریٹ سیاست اور محنت کش طبقے کی طاقت: بابرلؤی تحریک کی مثال

تاریخ گواہ ہے کہ جو تحریکیں کسانوں، محنت کشوں اور مزدوروں سے جنم لیتی ہیں، وہی سب سے دیرپا اور بااثر ہوتی ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے مگر سب سے کم سنا جاتا ہے۔ جب یہ لوگ سڑکوں پر آتے ہیں تو ان کا پیغام خالص، سچا اور طاقتور ہوتا ہے۔

جب سیاسی رہنما اور جماعتیں عوام کا اعتماد کھو بیٹھیں، جب وعدے صرف تقریروں میں رہ جائیں اور جب پارلیمنٹ میں عوام کی آواز دب جائے، تو تبدیلی کی راہ سڑکوں سے نکلتی ہے۔ ایسی سیاست جس میں عوام خود قیادت کرتے ہیں، جو اسمبلیوں کے بجائے چوراہوں پر جنم لیتی ہے، اسے اسٹریٹ سیاست کہتے ہیں۔ اور جب اس سیاست میں کسان، محنت کش، مزدور اور عام شہری شامل ہو جائیں تو یہ صرف احتجاج نہیں بلکہ ایک انقلابی بیانیہ بن جاتی ہے۔

اس وقت پاکستان سمیت کئی ممالک ایسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جہاں ریاستی سطح پر عوامی مسائل پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ جب ایک ملک پہلے ہی غربت، بیروزگاری، تعلیم، صحت اور معاشی بحران جیسے سنگین مسائل کا شکار ہو، جب اس کے عوام صوبائی خودمختاری، انصاف اور وقار سے محروم ہوں، جب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوں، اور جب حکومتیں صرف اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی بہتری کی پالیسیاں بنائیں تو پھر ردِعمل لازمی ہوتا ہے۔ ایسے بحران میں، اسٹریٹ سیاست عوام کی بیداری اور مزاحمت کی ایک فطری شکل بن کر سامنے آتی ہے۔

اسٹریٹ سیاست: سیاست کا متبادل بیانیہ
اسٹریٹ سیاست صرف بینر اٹھا کر نعرے لگانے کا نام نہیں۔ یہ سیاسی شرکت کا ایک نیا انداز ہے جہاں عوام خود اپنی آواز بنتے ہیں۔ جیسا کہ Maartje van Gelder نے اپنی کتاب Early Modern Streets میں لکھا، سیاست صرف ایوانوں اور دفاتر میں نہیں، بلکہ گلیوں اور بازاروں میں بھی ہوتی ہے۔ عوام جب منظم ہو کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ صرف احتجاج نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بن جاتا ہے۔

اسی طرح Asef Bayat اپنی تحقیق Poor People's Movements in Iran میں بیان کرتے ہیں کہ ریاستی جبر کے خلاف خاموش اور غیر رسمی مزاحمت جیسے کہ عوام کی روزمرہ زندگی میں چھوٹے مگر مسلسل اقدامات آخرکار بڑے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو چیلنج کر دیتے ہیں۔

محنت کش اور کسان: تبدیلی کے اصل محرک
تاریخ گواہ ہے کہ جو تحریکیں کسانوں، محنت کشوں اور مزدوروں سے جنم لیتی ہیں، وہی سب سے دیرپا اور بااثر ہوتی ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے مگر سب سے کم سنا جاتا ہے۔ جب یہ لوگ سڑکوں پر آتے ہیں تو ان کا پیغام خالص، سچا اور طاقتور ہوتا ہے۔

پاکستان کے ضلع خیرپور میں اُبھرتی ہوئی بابرلوئی بائی پاس تحریک اس کی تازہ مثال ہے۔ یہاں جب دریائے سندھ پر کینالز کی تعمیر اور گرین انیشی ایٹو جیسے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر زمینیں کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے کی جانے لگیں تو مقامی کسان، وکیل، اور عام لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ منصوبے ان کے روزگار، زمین اور ماحولیات کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ تحریک کسی سیاسی جماعت کی نہیں تھی، بلکہ عوام کی آواز تھی خود رو، غیر رسمی اور قیادت کے بجائے اجتماعی شعور پر مبنی۔

اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک نے ان جماعتوں کو مسترد کیا جو صرف نعروں کی سیاست کرتی ہیں مگر عوامی مفادات پر سمجھوتہ کرتی ہیں۔ قیادت کا معیار واضح تھا: جو عوام کے ساتھ ہو، وہی قابل قبول ہے۔

عالمی نظیریں اور مزاحمت کی طاقت
دنیا بھر میں ایسی تحریکیں ایک نئی سیاست کی شکل دے رہی ہیں۔ ہانگ کانگ کی امبریلا موومنٹ، ایران میں عوامی "non-movements"، اور عرب میں عوامی بیداری سب میں ایک بات مشترک تھی: جب حکومتیں عوام کے مسائل کو نظرانداز کریں، تو عوام خود راستہ بناتے ہیں۔

تحریکوں کی طاقت صرف تعداد میں نہیں بلکہ مزاحمت اور تسلسل میں ہوتی ہے۔ چھوٹے اقدامات جیسے روزمرہ زندگی میں مزاحمتی عمل، خود تنظیمی، اور مسائل پر کھلے عام بات چیت سیاسی ڈھانچوں کو چیلنج کرنے کی بنیاد رکھتے ہیں۔

موجودہ سیاسی نظام پر تنقید
آج کا سیاسی نظام ایک گہرے بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومتیں اور اپوزیشن دونوں عوامی مسائل سے کٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ اشرافیہ کی ترجمان بن جائے، جب قانون صرف کمزوروں پر لاگو ہو، جب تعلیمی ادارے بدحال، اسپتال غیر فعال، اور روزگار ناپید ہو تو یہ جمہوریت نہیں بلکہ اشرافیہ کی بالادستی ہوتی ہے۔
ایسے میں اسٹریٹ سیاست محض ردعمل نہیں بلکہ اصلاح کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ سیاست عوام کو اختیار دیتی ہے کہ وہ لیڈروں سے سوال کریں، ان کا احتساب کریں، اور خود اپنی قیادت کریں۔

نتیجہ: نئی سیاست کی طرف قدم
بابرلؤی تحریک نے یہ ثابت کر دیا کہ اصل سیاست وہ ہے جو عوام کے دل سے نکلے، جو زمین سے جڑی ہو، اور جس میں کسی فردِ واحد کا مفاد نہیں بلکہ اجتماعی بھلائی ہو۔ اسٹریٹ سیاست محض احتجاج نہیں بلکہ ایک متبادل سیاسی بیانیہ ہے جو جمہوریت کو ازسرنو تعریف کرتا ہے۔

اگر پاکستان جیسے ملک کو معاشی بحران، سماجی ناانصافی اور اندرونی و بیرونی مسائل سے نکالنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اسٹریٹ سیاست کو سنجیدگی سے لیں۔ عوامی بیداری، مزاحمت اور شرکت کے بغیر کوئی نظام مستحکم نہیں ہو سکتا۔

یہی وقت ہے کہ ہم سیاست کو صرف طاقت کے کھیل کے بجائے عوامی خدمت کا ذریعہ بنائیں اور اس کے لیے سڑکوں پر اٹھنے والی آوازوں کو سننا ہوگا، سمجھنا ہوگا اور انہیں قیادت کا حق دینا ہوگا۔
 

Naveed Ahmed
About the Author: Naveed Ahmed Read More Articles by Naveed Ahmed: 2 Articles with 774 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.