جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں
(Ghulam Murtaza Bajwa, SIALKOT)
جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں |
|
|
ایوان اقتدارسے |
|
پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے دو اہم اور ایٹمی طاقت کے حامل ممالک ہیں۔ دونوں ممالک کی تاریخ میں بدقسمتی سے کئی جنگیں ہو چکی ہیں جن کے نتائج نہ صرف تباہ کن رہے بلکہ خطے کے امن، ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مسائل کی جڑ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف سے برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے ملاقات کی ہے، جس میں شہباز شریف نے پہلگام واقعے کی تحقیقات میں برطانیہ کو شمولیت کی دعوت دے دی۔اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے واقعے کی اعلیٰ سطح پر شفاف، غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کا اعادہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ برطانیہ پاکستان اور بھارت سے اپنے دوستانہ سفارتی تعلقات کو استعمال کرے اور خطے میں امن کی کشیدہ صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔وزیراعظم نے برطانوی ہائی کمشنر کو پہلگام واقعے کے بعد کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا اور کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر پہلگام واقعہ پاکستان سے جوڑنے کو مسترد کیا۔برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ برطانیہ علاقائی امن و سلامتی کیلئے پاکستان، بھارت کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ دوسری جانب غیر ملکی اسپانسرڈ دہشتگردی بلوچستان کی ترقی کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے 15ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکاء سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دشمن عناصر کے مذموم عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ دشمن عناصر صوبے میں خوف، عدم استحکام اور تشدد کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد گروہ بلوچ شناخت کے نام پر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے سول سوسائٹی کے اراکین کی بلوچستان کے عوام کیلئے شعور بیدار کرنے کی کوششوں کو سراہا۔آرمی چیف نے بالخصوص نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ترقی و خوشحالی کے عمل میں کردار کو اہم قرار دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے ملاقات کی، سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر زور دیتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کے تسلسل پر اتفاق کیا۔ میڈیا سے گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ملاقات میں خطے کی موجودہ صورتحال اور پہلگام واقعہ کے بعد پاک بھارت تعلقات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پہلگام واقعے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، پاکستان پہلگام واقعے کی تحقیقات کی پیشکش کرچکا ہے، پاکستان پہل نہیں کرے گا لیکن مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ایرانی وزیر خارجہ صدر اور وزیراعظم سے بھی ملاقاتیں کریں گے، وہ اسی ہفتے بھارت بھی جائیں گے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنگ کا سب سے بڑا نقصان قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہے۔ فوجی اور عام شہریوں کی ہلاکتیں نہ صرف ذاتی المیے کا باعث بنتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کو غمزدہ کرتی ہیں۔جنگ پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں جنہیں اگر تعلیم، صحت، اور روزگار پر خرچ کیا جائے تو عوام کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ جنگ کی وجہ سے تجارتی روابط منقطع ہوتے ہیں، مہنگائی بڑھتی ہے اور ترقیاتی منصوبے رُک جاتے ہیں۔جنگی حملوں کے نتیجے میں سڑکیں، پل، ہسپتال، سکول اور دیگر اہم ادارے تباہ ہو جاتے ہیں، جس سے ملک کی ترقی رک جاتی ہے۔جنگ سے پیدا ہونے والا خوف، دہشت اور غم عوام، خاص طور پر بچوں پر گہرے نفسیاتی اثرات چھوڑتا ہے۔ جنگی حالات میں نفسیاتی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔جنگی علاقوں سے لوگ ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں مہاجرین کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ ان افراد کی رہائش، خوراک اور صحت کی دیکھ بھال ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔چونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں، اس لیے کسی بھی جنگ کا بڑھنا دنیا بھر کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کو اپنے مسائل مذاکرات کی میز پر حل کرنے چاہئیں۔ مستقل سفارتی روابط اور اعتماد سازی سے جنگ کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔میڈیا کو اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے اور امن، ہم آہنگی اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کو فروغ دینا چاہیے۔عوامی سطح پر روابط بڑھانے کے لیے طلبا، ادیبوں، فنکاروں اور صحافیوں کے وفود کا تبادلہ ضروری ہے تاکہ دونوں طرف غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس خطے میں امن قائم رکھنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔عوام میں جنگ کے نقصانات اور امن کی اہمیت سے متعلق شعور اجاگر کیا جانا چاہیے تاکہ وہ جنگ کی حمایت نہ کریں۔جنگی اسلحے پر بے تحاشہ خرچ کرنے کے بجائے وسائل کو عوامی فلاح کے منصوبوں پر صرف کیا جائے۔جنگیں قوموں کی ترقی کو پسماندگی میں بدل دیتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ترقی پذیر ممالک ہیں اور ان کی اصل ضرورت غربت، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کا حل ہے نہ کہ جنگ۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک ہوش سے کام لیں، ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کریں اور امن، ترقی اور باہمی احترام کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔
|