چینی صدر شی جن پھنگ اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کی دعوت پر 7 سے 10
مئی تک روس کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں اور ماسکو میں عظیم محب وطن جنگ میں
فتح کی 80 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔اس سے قبل انہوں نے 2015
میں 70 ویں سالگرہ کی تقریبات میں بھی شرکت کی تھی۔عالمی و علاقائی صورتحال
کو دیکھا جائے تو دنیا کی دو بڑی طاقتیں چین اور روس متعدد عالمی چیلنجوں
کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک شورش زدہ دنیا کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی
اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کر رہے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے27 دسمبر 1991 کو چین نے روسی فیڈریشن کو تسلیم کیا اور
سفیر کی سطح پر اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔1992 کے اواخر میں اس
وقت کے روسی صدر بورس یلسن نے چین کا دورہ کیا۔ فریقین نے ایک مشترکہ بیان
جاری کیا جس میں عوامی جمہوریہ چین اور روسی فیڈریشن کے درمیان باہمی
تعلقات کا خاکہ پیش کیا گیا اور ایک دوسرے کو باضابطہ طور پر دوست ممالک کے
طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس دورے نے چین کے تعلقات کو سابق سوویت یونین سے
روسی فیڈریشن کی جانب ہموار منتقلی کی راہ متعین کی۔
سنہ 1994 میں اس وقت کے چینی صدر جیانگ زیمن نے روس کا دورہ کیا۔ دورے کے
دوران دونوں ممالک نے اپنے دوسرے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے جس میں ایک
تعمیری شراکت داری قائم کی گئی جس میں اچھی ہمسائیگی اور باہمی فائدہ مند
تعاون شامل ہے۔
بورس یلسن نے 1996 میں پھر چین کا دورہ کیا ۔ انہوں نے اور جیانگ زیمن نے
اسٹریٹجک کوآرڈینیشن شراکت داری قائم کرنے اور مختلف شعبوں میں تعاون کو
مضبوط بنانے پر بات چیت کی۔ اس کے بعد دونوں فریقوں نے تیسرے چین روس
مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے، جس میں باضابطہ طور پر "برابری اور اعتماد کی
بنیاد پر اور اکیسویں صدی پر مبنی اسٹریٹجک کوآرڈینیشن شراکت داری" کے قیام
کا اعلان کیا گیا۔
اس کے بعد کے برسوں میں، چین اور روس کے تعلقات مزید گہرے ہوتے گئے، جن میں
اہم دستاویزات ، جیسے جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے نئے مرحلے پر 2013 کا
چین۔روس مشترکہ بیان، جامع اسٹریٹجک کوآرڈینیشن کو گہرا کرنے اور جیت جیت
تعاون کو فروغ دینے کے بارے میں 2015 کا مشترکہ بیان، اور شراکت داری کو
مزید گہرا کرنے کے بارے میں 2017 کا مشترکہ بیان ، شامل ہیں۔2021 میں دونوں
ممالک نے چین اور روس کے درمیان اچھی ہمسائیگی اور دوستانہ تعاون کے معاہدے
کی 20 ویں سالگرہ منائی اور معاہدے میں توسیع پر اتفاق کیا۔ 2024 میں چین
اور روس نے سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منائی۔یوں ، گزشتہ 76
برسوں کے دوران دوطرفہ تعلقات میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔
رواں سال اقوام متحدہ کے قیام کی 80 ویں سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے۔ اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل کے بانی ارکان اور مستقل ارکان کی حیثیت سے چین اور
روس پر بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے کی خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی
ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے گزشتہ آٹھ دہائیوں کے دوران، دونوں ممالک نے
بین الاقوامی نظام، بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر عالمی نظام اور اقوام
متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں پر مبنی بین الاقوامی تعلقات کو چلانے
والے بنیادی اصولوں کو مستقل طور پر برقرار رکھا ہے۔ فریقین نے حقیقی کثیر
الجہتی پر عمل کیا ہے اور بڑی طاقتوں سے وابستہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔
چین اور روس نے ایران کے جوہری مسئلے جیسے بین الاقوامی اور علاقائی ہاٹ
اسپاٹ مسائل کے سیاسی حل کو فروغ دینے میں قریبی تعاون کیا ہے۔ اقوام متحدہ
کے چارٹر کے دفاع میں دوستوں کے گروپ کے رکن کی حیثیت سے دونوں ممالک نے
یکطرفہ پسندی، بالادستی اور طاقت کی سیاست کی سخت مخالفت جاری رکھی ہے اور
بین الاقوامی انصاف اور شفافیت کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
فریقین نے اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم، برکس اور جی 20 سمیت کثیر
الجہتی پلیٹ فارمز کے اندر مواصلات اور تعاون کو گہرا کیا ہے، ایک کثیر
قطبی دنیا کو فروغ دینے اور بین الاقوامی تعلقات کی جمہوریت کو فروغ دینے
اور گلوبل ساؤتھ کی مشترکہ ترقی میں حصہ لیا ہے۔کثیر الجہتی پلیٹ فارمز کے
ذریعے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون نے نہ صرف کثیرالجہتی کو بحال کیا
ہے بلکہ عالمی گورننس میں گلوبل ساؤتھ کی آواز کو بھی بڑھایا ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران دونوں فریقوں کی جانب سے دیے گئے متعدد سرکاری مشترکہ
بیانات میں چین اور روس نے بارہا کہا ہے کہ ان کے تعلقات کسی قسم کی گروہ
بندی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا مقصد کسی تیسرے فریق کو نشانہ بنانا ہے۔چین
واضح کر چکا ہے کہ"عدم گروہ بندی، عدم تصادم اور کسی تیسرے فریق کو نشانہ
نہ بنانے" کا عزم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ چین اور روس کے تعلقات کسی
دوسرے ملک کے لئے خطرہ نہیں ہیں اور اسے بیرونی دباؤ یا مداخلت سے آزاد
رکھتے ہیں۔یہ اصول بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ہے، جو چین اور
روس کے تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ایک ناگزیر انتخاب کی نمائندگی کرتا ہے۔
|