دوسری سالانہ گلبل کانفرنس برائے ادب اطفال
(haseeb ejaz aashir, Lahore)
|
حسیب اعجاز عاشرؔ ننھی کلیاں، جن کے چہروں پر مسکراہٹ کی ہلکی سی روشنی اور آنکھوں میں زندگی کا سوال لیے، ہر لمحہ درد و تکلیف کے ساتھ زندگی کی نازک راہوں پر محوِ سفر ہیں۔ تھیلیسیمیا جیسے بے رحم مرض کے ہاتھوں یرغمال معصوم وجود، جن کا ہر دن ایک کربناک امتحان اور ہر لمحہ زندگی و موت کی کشمکش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ وہ پھول ہیں جن کی خوشبو ابھی فضا میں پھیلی بھی نہ تھی کہ بیماری کی آندھی نے ان کی نزاکت کو روند ڈالا۔ انہی حساس جذبوں، فکری سچائیوں اور انسان دوست مقاصد کی روشنی میں گلبل فورم پاکستان کے زیرِ اہتمام دوسری سالانہ گلبل کانفرنس برائے ادبِ اطفال بعنوان”تھیلیسیمیا، بچے، والدین: مسائل اور حل“ کا انعقاد مقامی ہال میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ کیا گیا۔یہ محض یہ تقریب نہیں تھی بلکہ ایک مقصد کی تجدید تھی، یہ محض دوستوں کا گٹھ جوڑ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ و فکر کا میلہ تھا، جس میں ہر دل نے انسانی ہمدردی، اجتماعی ذمہ داری اور معاشرتی آگاہی کے جذبات کی حرارت محسوس کی۔ یہ وہ لمحے تھے جب ہال میں موجود ہر دل، ہر نگاہ، اور ہر سوچ ایک ہی نکتے پر مرکوز تھی: ان معصوم جانوں کو کیسے بچایا جائے، ان کی زندگیوں میں خوشیوں کی روشنی کیسے بھری جائے؟ مقررین کی گفتگو، سامعین کا انہماک، اور منتظمین کی کاوشیں سب مل کر ایک ایسے ماحول کی تشکیل کر رہے تھے جہاں سماجی شعور کی جھلک ہر گوشے میں نمایاں تھی۔ صدرِ محفل معروف ادیب و کالم نگار جبار مرزا سمیت ملک کے نامور قلمکار، دانشور اور ماہرینِ طب نے اپنے بصیرت افروز خیالات سے شرکاء کو مستفید کیا۔ ان میں سرفہرست ناصر ادیب (سینیئر اسکرپٹ رائٹر)، محمد زبیر انصاری (سیاسی و سماجی شخصیت)، حافظ مظفر محسن (مزاح نگار)، نذیر انبالوی، غلام زادہ نعمان صابری، علی عمران ممتاز، عبدالصمد مظفر (پھول بھائی)، ڈاکٹر فوزیہ سعید، ڈاکٹر فضیلت بانو، مرزا یسین بیگ، تسنیم جعفری، اور عائشہ اطہر جیسے علمی و فکری شخصیات شامل تھیں۔اپنے اپنے اظہار خیال میں کہا کہ یہ بیمار بچے جن کی نگاہیں ہماری طرف ٹکی ہوئی ہیں، یہ وہ بچے ہیں جو کل کے معمار ہوں گے، جو اِس ملک کی تقدیر کے فیصلے کریں گے، جو اِس دھرتی کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے، مگر آج، ہم میں سے ہر ایک کو ان کی مدد کے لئے آگے آنا ہوگا۔مقررین نے اپنے خطابات میں اس بات پر زور دیا کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو نہ صرف مریض بلکہ پورے خاندان کو متاثر کرتی ہے۔ اس کا واحد مؤثر حل شعور و آگاہی اور قبل از نکاح خون کی اسکریننگ کے فروغ میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے اساتذہ، والدین، میڈیا اور حکومتی اداروں سے اپیل کی کہ اس مرض کے سدباب کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک صحت مند زندگی کا تحفہ دیا جا سکے۔ تقریب کی نظامت کے فرائض نہایت حسن و خوبی سے قاری محمد عبداللہ، نمرہ ملک اور ڈاکٹر طارق ریاض نے انجام دیے۔ ان کی خوش الحانی، وقار اور فصاحت نے محفل کو ایک ادبی رنگ عطا کیا، مقررین کا تعارف ہو یا موضوع کی تمہید دلنشین انداز میں سامعین کی توجہ قائم رکھی بلکہ محفل کا حسن بھی بڑھا یا۔شرکاء کی آمد پر، مہمانوں کے استقبال کا منظر قابلِ دید تھا۔ انتظامیہ گلدستے ہاتھوں میں لیے، تبسم و شائستگی کے ساتھ مہمانانِ گرامی کا خیرمقدم کر رہی تھی۔ہر مہمان کو عزت، وقار اور خلوص کے ساتھ خوش آمدید کہنا اس بات کا مظہر تھا کہ یہاں ادب اور محبت ایک دوسرے کے ہمزاد ہیں۔ شرکا ء کی کہنا تھا کہ ایسی بامقصد تقریبات دلوں میں ایک نئی سوچ، ایک نئی فکر اور ایک نیا مقصد پیدا کرتی ہیں، انسان کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتی ہیں، اور اسے یہ سمجھاتی ہیں کہ زندگی کتنی قیمتی ہے، سانسوں کا تسلسل کس قدر اہم ہے اور ہماری موجودگی کا ہر لمحہ دوسروں کے لیے کتنا معنی رکھتا ہے۔کانفرنس کا ایک اور اہم پہلو تھیلیسیمیا کے حوالے سے گلبل میگزین کا مرکز نگاہ بننا تھا۔ اس جریدے نے نہ صرف علمی سطح پر بلکہ جذباتی و فکری سطح پر بھی شرکاء کو متاثر کیا بلکہ اس اقدام کو سراہتے ہوئے شرکاء نے اس امید کا اظہار کیا کہ تعلیم اور شعور ہی وہ قوت ہے جو معاشرتی مسائل کا دیرپا حل فراہم کر سکتی ہے۔ اِس موقع پر زبیر انصاری نے بک اسٹال پر رکھی گلبل میگزین سمیت تمام کتب بلا تامل خرید لیں، اور پھر وہی کتب ازسرِ نو اسٹال والوں کو برائے فروخت عطیہ کر دیں تاکہ ان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کی مدد پر خرچ ہو۔ یہ عمل نفع نہیں بلکہ نیت، تجارت نہیں بلکہ خدمت کا مظہر تھا۔اِس موقع پر غلام زادہ نعمان صابری نے فلسطینی بچوں سے اظہارِ یکجہتی کی قرارداد پیش کی، جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ تقریب کے آخر میں علمی، ادبی اور سماجی خدمات انجام دینے والے افراد میں انعامات اور اعزازات تقسیم کیے گئے، جو نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی تھی بلکہ خدمتِ خلق کے جذبے کو فروغ دینے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی۔ قارئین کرام سے دست بدستہ گزارش ہے کہ اٹھیں! اپنے ہاتھوں میں سخاوت کا جام تھامیں،خون دو، امید دو، حیات بانٹیں،کہ ان نازک کلیوں کو مرجھانے نہ دو،ان خوابوں کو تندبادِ یاس میں بکھرنے نہ دیں۔ہر جان تمہاری ابدی نجات کا وسیلہ ہوگا،ہر مسکراہٹ تمہاری مغفرت کی سند بنے گی،جہاں ایک معصوم ہنسے گا،وہیں تمہاری تقدیر چمکے گی، تمہارا نصیب نکھرے گا۔آئیں!اک بوندِ محبت سے،اک بوندِ زندگی سے،اپنے نام کو جاوداں کر لیں،اور ان معصوم لبوں پر امید کا نغمہ رقم کر دیں۔خدارا اپنے حالات و معاملات سے پریشان نہ ہوئیے، جب جیب خالی ہو،ہاتھ خالی ہوں،الفاظ ساتھ چھوڑ جائیں،ہوائیں مخالف سمت سے جھپٹ پڑیں، جب دنیا کی راہیں مسدود ہو جائیں،تب بھی اک راہ باقی رہتی ہے۔وہ راہِ دعا ہے جو عرش کو ہلا دیتی ہے،جو بے کس کو آسرا بخشتی ہے۔کم از کم دعا تو کریں کہ اے شافی امراضِ جہاں!ان نازک کلیوں کو زوالِ خزاں سے محفوظ فرما،ان ناتمام خوابوں کو شکست و ریخت سے بچا،ان معصوم نگاہوں سے نورِ اُمید کی لو کبھی مدھم نہ ہونے دے۔اے ربِ کریم!ہم خاکسار بندوں کو یہ سعادت بخش،کہ ان کے درد کا مداوا کر سکیں،اور ان کی زندگیوں میں خوشی و طمانیت کی فصلیں اُگا سکیں۔آمین، یا رب العالمین!
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.