سعودی شہزادہ

ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے

سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ ان کے پیچھے ایک نام ہے: محمد بن سلمان، سعودی ولی عہد۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔

پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔

اگر کوئی وجہ باقی ہے، تو وہ ہے سعودی تعلقات — اور خاص طور پر محمد بن سلمان کا وہ اثر جو ٹرمپ پر قائم ہوا۔ ایک حالیہ مثال رچرڈ گرنیل کی سرگرمی ہے، جو ٹرمپ کے مشیر رہے اور پاکستان کے خلاف سخت بیانیے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب وہ پاکستان پر تنقید کر رہے تھے، تو نہ کسی سفارتکار کی تقریر مؤثر ہوئی، نہ یوتھیاؤں کی امریکہ میں لابنگ کامیاب ہوئی۔
لیکن پھر ایک کال — سعودی وزیرِ دفاع کی طرف سے — اور رچرڈ گرنیل کی آواز بند ہو گئی۔
یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے — اور وہ ہے عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان سرد مہری۔
سعودی ولی عہد کو عمران خان کی شخصیت سے خاصی ناپسندیدگی ہے، جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آ چکی ہیں:
اول، وہ قیمتی گھڑی جو
MBS
کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی، بازار میں بیچ دی گئی۔
دوم، عمران خان کی کابینہ یا قریبی حلقے سے
MBS
کے خلاف نازیبا کلمات سعودی سفارتی ذرائع تک پہنچے، جسے ولی عہد نے ذاتی توہین کے مترادف سمجھا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما اگر کبھی پاکستان کے لیے کسی نرم گوشے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی وجہ نہ اسلام آباد ہے، نہ واشنگٹن کی کوئی پالیسی۔
وہ صرف اور صرف
MBS
کی ذاتی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔
یہی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی ہو گی۔
پاکستان کو مستقبل میں اگر دنیا میں کوئی حیثیت درکار ہے، تو اسے اپنے خارجی تعلقات کو انا، ضد اور ذاتی رویوں سے الگ رکھنا ہو گا۔
سفارت صرف بیانات اور تصویروں سے نہیں چلتی — یہ رشتوں، عزت داری، اور بھروسے سے چلتی ہے۔
یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔


 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 146 Articles with 182121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.