2025 میں پاک-بھارت تعلقات ایک بار پھر شدید کشیدگی کا
شکار ہوئے، جس کی بنیاد 22 اپریل کو پاہلگام، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے
دہشت گرد حملے پر رکھی گئی۔ اس حملے میں 26 سیاح ہلاک ہوئے، جن میں 25
بھارتی اور ایک نیپالی شہری شامل تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان
میں موجود تنظیموں جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ پر عائد کیا، جبکہ پاکستان نے
اس کی مذمت کی اور کسی بھی مداخلت سے انکار کیا۔ بھارتی ردعمل: آپریشن
سندور 7 مئی کو بھارت نے "آپریشن سندور" کے تحت پاکستان اور آزاد کشمیر میں
نو مقامات پر فضائی حملے کیے، جن میں بہاولپور، مریڈکے، سیالکوٹ، مظفرآباد
اور کوٹلی شامل تھے۔ بھارتی فضائیہ نے رافیل طیاروں اور SCALP میزائلوں کا
استعمال کیا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے
تباہ کیے گئے، جبکہ پاکستان نے ان حملوں کو "بزدلانہ کارروائی" قرار دیا
اور جوابی کارروائی کا اعلان کیا۔ پاکستان کا جوابی اقدام آپریشن بنیانُ
المرصوص: پاکستان نے 7 اور 8 مئی کو "آپریشن بنیانُ المرصوص" کے تحت بھارتی
فوجی تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ پاکستانی فوج نے پانچ بھارتی
جنگی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا، جن میں تین رافیل، ایک Su-30MKI اور
ایک MiG-29 شامل تھے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے بھارتی بریگیڈ ہیڈکوارٹرز
اور چیک پوسٹوں کو بھی نشانہ بنایا۔ سفارتی تعلقات کی خرابی بھارت نے سندھ
طاس معاہدہ معطل کر دیا اور اٹاری-واہگہ بارڈر بند کر دیا۔ پاکستان نے اس
کے جواب میں شملہ معاہدہ معطل کیا، بھارتی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا اور
فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے بند کر دی۔ علاقائی اور عالمی خدشات دونوں
ممالک کے جوہری طاقت ہونے کے باعث، عالمی سطح پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ یہ کشیدگی جوہری تصادم کی
طرف لے جا سکتی ہے۔ جنگ بندی اور مستقبل 10 مئی کو دونوں ممالک کے ڈائریکٹر
جنرل ملٹری آپریشنز (DGMOs) نے جنگ بندی پر اتفاق کیا، جو 18 مئی تک مؤثر
رہی۔ حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے امید ظاہر کی کہ یہ جنگ بندی مستقل
امن کی طرف ایک قدم ثابت ہوگی۔ نتیجہ 2025 کی پاک-بھارت کشیدگی نے ایک بار
پھر ثابت کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کا حل صرف مذاکرات اور باہمی
افہام و تفہیم سے ممکن ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو
مذاکرات کی میز پر لانے۔
|