ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ کا دورہ:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرقِ وسطیٰ کا حالیہ چار روزہ دورہ کئی حوالوں
سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ انھوں نے اس دورے کےلیے سعودی عرب، متحدہ
عرب امارات اور قطر کا انتخاب کیا، مگر حیرت انگیز طور پر اسرائیل کو نظر
انداز کیا۔ عموماً امریکی صدور کے مشرقِ وسطیٰ کے دورے میں، صہیونی ریاست
کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ اس اقدام نے نہ صرف سفارتی حلقوں کو چونکا دیا؛
بلکہ اسرائیلی قیادت کے لیے بھی اس میں ایک واضح پیغام تھا۔ ٹرمپ کے اس
فیصلے سے اسرائیلی وزیر اعظم کا اضطراب محض ایک مفروضہ نہیں؛ بلکہ اس میں
ایک واضح سیاسی علامت بھی چھپی ہوئی ہے۔ یہ غیر رسمی اظہار اس امر کی غمازی
کرتا ہے کہ امریکہ، کم از کم اس موقع پر، صہیونی ریاست اسرائیل کی غزہ میں
نسل کشی اور انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ سے خوش نہیں ہے۔
اس دورے سے متعلق عوامی توقعات مختلف تھیں۔ بعض حلقے پر امید تھے کہ سعودی
عرب اور قطر کی کوشش کے نتیجے میں، غزہ میں انسانی بحران میں کمی آئے گی
اور جنگ بندی کی کوئی صورت نکلے گی۔ مگر زمینی حقائق نے ان امیدوں کو عملی
شکل اختیار نہ کرنے دی۔ امریکی صدر نے اپنے مخصوص مفادات اور ایجنڈے کو
ترجیح دی اور دورہ مکمل کر کے واپس لوٹ گئے۔ البتہ شام کے حوالے سے ایک پیش
رفت یہ ہوئی کہ ٹرمپ نے اس پر عائد امریکی پابندیوں کو برخاست کرنے کا
اعلان کیا، جو مستقبل میں شامی حکومت کے لیے نئی راہیں کھول سکتا ہے۔
غزہ کو "آزادی زون" بنانے کا ارادہ:
دورے کے اختتام پر قطر میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے غزہ کو
"آزادی زون" بنانے کا عندیہ دیا جس کے پیچھے چھپے سیاسی مفادات اور اس تصور
کی عملی حیثیت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر صدر ٹرمپ نے
اسرائیلی جارحیت، محاصرے اور بمباری اور اس کے نتیجے میں نسل کشی کا ذکر
نہیں کیا۔ یہی خاموشی خود ایک گہرا اور معنی خیز سیاسی بیان ہے، جو اس امر
کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ غزہ کی تعمیرِ نو کو ایک نیا جغرافیائی اور
سیاسی منصوبہ بنانے کے تناظر میں دیکھ رہا ہے، نہ کہ ایک انسانی بحران کے
حل کے طور پر۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت کے باوجود، امریکی صدر کی
طرف سے اس بنیادی مطالبے پر کوئی توجہ نہ دینا، اس امر کی طرف اشارہ کرتا
ہے کہ "آزادی زون" کا تصور شاید کسی نئے سیاسی منصوبے کا پیش خیمہ ہو، نہ
کہ خالص انسانی ہمدردی کا مظہر۔
جنگ بندی پر خاموشی اور "آزادی زون" کا مبہم تصور:
قابض ریاست اسرائیل شب و روز فلسطینیوں کے خلاف اپنی فوجی کارروائیاں جاری
رکھے ہوئے ہے، جسے منظم نسل کشی کہنا چاہیے۔ ہر دن درجنوں نہتے فلسطینی
اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں؛ مگر اس تمام تر خونی منظرنامے کے باوجود،
جنگ بندی کے حوالے سے نہ تو کوئی سنجیدہ سفارتی کوشش نظر آرہی ہے اور نہ ہی
عالمی طاقتوں کی طرف سے کوئی مؤثر دباؤ۔ اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں میں
کسی قسم کی پسپائی کے آثار نہیں ملتے؛ بلکہ حملوں کی شدت اور دائرہ کار میں
مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حملوں کا تسلسل اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ
یہ تنازع ایک طویل، پیچیدہ اور خونی جنگ کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
زمینی حقائق نہایت خوفناک رخ اختیار کر چکے ہیں۔ ہزاروں انسانی جانیں ضائع
ہو چکی ہیں اور مزید جانی نقصان کا خدشہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔
ان سنگین حالات میں جب دنیا کی نظریں جنگ بندی اور انسانی امداد کی فوری
بحالی پر مرکوز ہونی چاہییں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کو "آزادی زون"
بنانے کے مبہم تصور کی بات کر رہے ہیں۔ یہ مؤقف درحقیقت ایک نئے قسم کے
قبضے یا کنٹرول کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس وقت اصل سوال یہ ہے کہ کیا
جنگ بندی اور غزہ کے محاصرے کے خاتمے کے بغیر کسی بھی "آزادی زون" کی بات
کوئی عملی یا اخلاقی وزن رکھتی ہے؟ امریکی میڈیااین بی سی نے 16/مئی 2025
کو یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکہ نے افریقی ملک لیبیا سے بات چیت کی کہ وہ
دس لاکھ فلسطینیوں کو مستقل طور پر اپنے یہاں پناہ دے۔ اس کے بدلے میں،
امریکہ لیبیا کے وہ اربوں ڈالر، جو ایک دہائی قبل منجمد کیا تھا، جاری کردے
گا۔
غزہ کے میڈیکل کلینک پر صہیونی فضائیہ کی بمباری:
غزہ کی موجودہ صورت حال نہایت سنگین اور انسانیت سوز ہے۔ خوراک، پانی، بجلی
اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات ناپید ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی بمباری کا
سلسلہ جاری ہے۔ 16/ مئی 2025 کو جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر قابض صہیونی
افواج کے حملے اس حد تک ہولناک تھے کہ انھیں انسانی تاریخ کے ان سیاہ ابواب
میں شمار کیا جا سکتا ہے جو نسل کشی اور ریاستی دہشت گردی کی علامت بن چکے
ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے جبالیہ کے ایک فعال اور مصروف میڈیکل کلینک کو براہِ
راست نشانہ بنایا، جہاں وہ زخمی فلسطینی زیرِ علاج تھے جو پہلے ہی صہیونی
بمباری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کسی طبی مرکز پر حملہ کرنا نہ صرف اخلاقی
طور پر افسوس ناک ہے؛ بلکہ بین الاقوامی انسانی قوانین، خصوصاً جنیوا
کنونشنز کی دانستہ خلاف ورزی بھی ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں اسپتالوں،
ایمبولینسوں اور طبی عملے کو مکمل تحفظ فراہم کرنا، ایک بین الاقوامی اصول
ہے؛ جب کہ صہیونی افواج اپنے مسلسل حملے سے تقریبا سارے اسپتالوں کو زمین
دوز کرچکی ہے۔ اس المناک واقعے کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی اور بڑی
طاقتوں کی سیاسی مصلحت اندیشی ایک اور المیہ ہے۔ صہیونی ریاست کی طرف سے
کھلی نسل کشی پر مؤثر عالمی ردعمل نہ آنا بین الاقوامی ضمیر کی ناکامی ہے
اور اس طرح کا رویہ آنے والے وقت میں ایسے جرائم کے لیے راستہ ہموار کر
سکتا ہے۔
جبالیہ پر بمباری انسانیت کے خلاف سنگین جرم:
جبالیہ کیمپ میں اسرائیلی بمباری ایک دل دہلا نے والا منظر پیش کرتی ہے۔
بمباری کا نشانہ بننے والے میڈیکل کلینک میں زیرِ علاج مریضوں کے جسموں کے
چیتھڑے اڑ گئے۔ وہ منظر کتنا خطرناک ہوگا، جہاں انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑ
رہے ہوں! (اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے!) اس حملے میں مریض کے ساتھ ساتھ
طبی عملہ بھی شہید اور زخمی ہوا جو شدید خطرات کے باوجود اپنی جانیں ہتھیلی
پر رکھ کر انسانیت کی خدمت کر رہا تھا۔ ایسے حملوں کو محض عسکری کارروائیاں
نہیں کہا جاسکتا ہے؛ بلکہ یہ کھلی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف سنگین جنگی
جرائم ہیں۔ اس لرزہ خیز حملے میں شہادتوں کی تعداد 143 تک جا پہنچی ہے، جن
میں 13 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف اعداد نہیں؛ بلکہ اس
المناک حقیقت کی گواہی ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کا اصل نشانہ عام شہری،
خواتین، بزرگ اور معصوم بچے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو کسی بھی جنگ کا حصہ
نہیں ہیں؛ مگر صہیونی افواج انھیں نشانہ بنارہی ہے۔
عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے اس بربریت کے سامنے جس مجرمانہ
خاموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ عالمی ضمیر کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی سیاسی مصلحتیں ہیں جو معصوم انسانی جانوں کے
سامنے دیوار بن کر، کھڑی ہیں؟ اور کب تک انسانیت کی یہ چیخیں عالمی
دارالحکومتوں کے ایوانوں تک پہنچنے سے قاصر رہیں گی؟
اسرائیلی وزیر کا نسل کشی پر مبنی مطالبہ:
ایک انتہا پسند اسرائیلی وزیر کی جانب سے مغربی کنارے کے ایک پورے قصبے کو
مٹانے کا مطالبہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں؛ بلکہ ایک ایسی سوچ کی عکاسی ہے
جو نسل کشی کو پالیسی کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ بیان اسرائیلی قیادت کی اس
ذہنیت کو بے نقاب کرتا ہے جس میں دہشت، طاقت اور بربریت کو مسئلے کا "حل"
سمجھا جاتا ہے۔ اسی بیان کے بعد، 15 اور 16 مئی 2025 کی رات سے غزہ پر ہونے
والے شدید حملے ایک منظم اور منصوبہ بند جارحیت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
بنیادی انسانی سہولیات کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے
کہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو بین الاقوامی
انسانی قوانین اور اخلاقی اصولوں کی کھلی توہین ہیں۔ مارچ 2025 سے شروع
ہونے والی صہیونی نسل کشی میں، اب تک تقریبا تین ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں۔
یہ المناک صورت حال ایک بار پھر دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ
محض ایک زمینی تنازع یا جغرافیائی جھگڑا نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک انسانی بحران
بھی ہے۔ ایسا بحران جس میں ظلم اپنی انتہا کو چھو رہا ہے اور انصاف پس پشت
جا چکا ہے۔ اگر آج بھی عالمی طاقتیں خاموش رہیں اور بین الاقوامی ادارے صرف
بیانات تک محدود رہے؛ تو کل تاریخ انھیں بھی ظالموں کے ساتھ شمار کرے گی۔
دیر البلح اور خان یونس میں موت کی رات:
قابض اسرائیل کی بربریت کی داستان15 اور 16 مئی 2025 کی رات کو جبالیہ کیمپ
تک محدود نہیں رہی۔ اسی رات، دیر البلح کے مضافات اور خان یونس کے گنجان
آباد علاقوں میں، فضائی حملوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے پوری غزہ پٹی کو
لرزہ کر دیا۔ رات کی تاریکی میں گونجتے دھماکوں نے شہری آبادی کو موت کی
نیند سلا دیا۔ درجنوں خاندان دھول اور آنسوؤں میں لپٹے، اپنے پیاروں کی
لاشیں اٹھانے میں مشغول ہوگئے۔ ان حملوں میں جبالیہ کیمپ کے علاوہ دیگر
مقامات سے بھی کم از کم 93 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جن کی تصدیق
انڈونیشیائی اور ناصر اسپتالوں نے کی۔ 48 لاشیں انڈونیشیائی اسپتال اور 16
ناصر اسپتال میں لائی گئیں۔
اس ہولناک انسانی تباہی کے دوران، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جنگ کو
مزید تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان درحقیقت اُس صہیونی پالیسی کا
واضح اظہار ہے جو طاقت کے اندھے استعمال کو ایک "حق" کے طور پر پیش کرتی
ہے۔ یہ وہ پالیسی ہے جو کسی بھی اخلاقی حد، انسانی اصول، یا بین الاقوامی
قانون کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہ سب کچھ عالمی برادری کے سامنے ہو رہا ہے؛ مگر
عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
غزہ میں نسل کشی اور عالمی ضمیر کی آزمائش:
غزہ کی موجودہ صورت حال ایک المناک حقیقت کی عکاس ہے کہ انسانی حقوق اور
عالمی انصاف کا قیام ابھی بھی ایک خواب ہے۔ قابض صہیونی ریاست کی جارحیت
اور دہشت گردی نہ صرف ایک خطے کو مفلوج کر چکی ہے؛ بلکہ انسانی اخلاقیات
اور بین الاقوامی قوانین کو بھی چیلنج کر رہی ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی
اور غیر سنجیدگی اس المیے کو مزید طول دیتی ہے۔ ایسے موقع سے سب کو مل کر
اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اور ایک منصفانہ، دیرپا اور پرامن حل
کی تلاش میں سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر ہم آج خاموش رہتے ہیں؛ تو کل
کی تاریخ ہمیں بھی قصوروار ٹھہرائے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم انسانیت کے
تقاضوں کو سمجھیں اور ایک ایسے مستقبل کی جانب قدم بڑھائیں، جہاں امن،
انصاف اور آزادی ہر انسان کا حق ہو۔ تبھی فلسطینیوں کے لیے ایک نیا سویرا
طلوع ہو سکے گا۔ ••••
|