مرزا محمد رفیع سودا

پیدائش : 1706 وفات 1781:

مرزا محمد رفیع سودا اردو شاعری کے ایک دیو پیکر تخلیق کار تھے۔اردو شاعری میں طنزو مزاح کے حوالے سے ان کی تخلیقی کامرانیوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ان کی مشہور نظم “ آئین داوری“ اردو کی پہلی سیاسی نظم سمجھی جاتی ہے۔مرزا محمد رفیع سودا نے زندگی کی ناہمواریوں ،بے اعتدالیوں اور تضادات پر گرفت کی ۔ان کی ظریفانہ شاعری میں اصلاح اور خلوص کا جذبہ پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔سودا کو ہجو گوئی میں جو کمال حاصل ہے اس کا ایک منفرد روپ پیش خدمت ہے:
لشکر کے بیچ آج یہی قیل و قال ہے
کھانے کی چیز کھانے کا سب کو خیال ہے
یوں دخل امر و نہی میں کرنا محال ہے
جو فقہ داں ہیں سب کو یہ ان کا خیال ہے
اک مسخرہ یہ کہتا ہے کوا حلال ہے
حامی انھوں کے قول کا ہووے ہے چاند خاں
اور دوسرے میں کیا کہوں اک اپنے مہرباں
کچھ شک رہا ہے کوے کی حلت کے درمیاں
ہم سے جو کوئی پوچھے تو ہم بھی کہیں کہ ہاں
اک مسخرہ یہ کہتا ہے کوا حلال ہے
یارو بسو ہو تم اسی دیر خراب میں
بیٹھا اوٹھا کرو ہو سدا شیخ و شاب میں
حلت رکھے ہے زاغ کسو بھی کتاب میں
جتنی کتب ہیں فقہ کی ان کے جواب میں
اک مسخرہ یہ کہتا ہے کوا حلال ہے

مرزا محمد رفیع سودا کی ہجویات میں مبالغہ کی کیفیت قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔آخری عہد مغلیہ میں مغل حکمرانوں کی بے بصری کے باعث فوج کی حالت نا گفتہ بہ تھی ۔گھوڑے اور سا مان جنگ سب کے سب بے کار تھے ۔گھوڑے کی ہجو ملاحظہ فرمائیں اس میں سودا نے مغلوں کی لرزہ بر اندام حکومت پر شدید چوٹ کی ہے۔یہ گھوڑا نظام کہنہ کی گرتی ہوئی عمارت کی علامت بھی سمجھی جا سکتی ہے۔
اتنا وہ سر نگوں ہے کہ سب اڑ گئے ہیں دانت
جبڑے پہ بس کہ ٹھوکروں کی نت پڑے ہے مار
ہے پیر اس قدر کہ جو بتلائے اس کا سن
پہلے وہ لے کے ریگ بیاباں کرے شکار
لیکن مجھے ز روئے تواریخ یاد ہے
شیطاں اسی پہ نکلا تھا جنت سے ہو سوار

مرزا محمد رفیع سودا نے اپنے عہد کے پر آشوب حالات کی جو مرقع نگاری کی ہے وہ ہر عہد میں فکر و نظر کو مہمیز کرتی رہے گی۔مطلق العنان بادشاہوں کے دور کے شقاوت آمیز نا انصافیوں کے بارے میں سودا کا اسلوب حریت فکر کی پیکار اور ضمیر کی للکار ہے جس نے عوام میں مچبت شعور و آگہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا سودا کا شعار تھا۔اس کی نظم ”شیدی فولاد خان کوتوال “ کی ہجو اس کی اعلیٰ مثال ہے۔

معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں نے رتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔ان میں بے جو ڑ شادیا ایک لرزہ خیز اعصاب شکن المیہ ہیں۔ایک مخبوط الحواس ،فاتر العقل،جنسی جنونی فلسفی کو سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کا خبط تھا ۔اس کی جہالت نے اسے بڑھاپے میں داد عیش دینے پر مائل کیا اوراس گھٹیا عیاش نے عالم پیری میں قبر کو فراموش کر کے شادی کر لی اور ایک بارہ برس کی نوخیز حسینہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو گیا۔
سودا نے اس انہونی کی خوب خبر لی اور اس متفنی فلسفی کو آئینہ دکھانے میں کوئی تامل نہ کیا۔
القصہ شیخ جی کی جو حرمت خدا گنوائے
بارہ برس کی چھوکری باجا بجاتے لائے
آئے دولھن کے گھر سے جو مقنع میں منہ چھپائے
جیسا ہمارے کہنے کو خاطر میں وہ نہ لائے
اپنے کیے کو تیسا ہی پاتے ہیں شیخ جی
جورو کہے ہے شیخ سے اے شیخ تم سنو
کچھوے کو تم نے دی ہے دغا چپکے ہو رہو
میں جانتی ہوں تم کو کہ تم فیلسوف ہو
سودا زیادہ کیا کہے ہے بات گو مگو
جیسے ہیں تیسے جو تیاں کھاتے ہیں شیخ جی

سودا کی ہجویات سے حس ظرافت کو تحریک ملتی ہے ۔سودا کی بعض ہجویات میں معاصرانہ چشمک کا عنصر نمایاں ہے۔اس کے باوجود ان ہجویات کی ادبی اہمیت مسلمہ ہے۔وہ ایک یادگار زمانہ تخلیق کار تھے۔ان کی ظریفانہ شاعری کئی فسانے سناتی ہے۔ان میں سے ہر فسانہ حالات کی ستم ظریفی اور گردش مدام کی بوالعجبی کا شاخسانہ ہے۔یہ شاعری ابد آشناہے اور سودا کا نام افق ادب پر تا ابد ضو فشاں رہے گا۔
سودا کے جو بالیں پہ ہو اشور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 8 Articles with 27562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.