اس وقت سارے پاکستان میں انقلاب
کی صدائے گونج رہی ہیں ۔انقلاب کیا ہے ۔بابائے سیاسیات اور حقیقت پسند انہ
مکتب فکر کے بانی ارسطو نے اپنی شیرہ آفاق کتاب "Politics"کے پانچویں باب
میں انقلاب پر روشنی ڈالی ہے۔
پاکستان ارسطو کے نظریات پر چل سکتا ہے؟ارسطو نے اپنے فلسفے میں انقلاب کی
کل8 اقسام بیان کی ہیں ۔ارسطو کے افکار پر روشنی ڈالنے کے بعد اگر پاکستان
کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان میں آج تک کبھی بھی ارسطو کے
انقلاب کی اصل صورت مکمل انقلاب نہیں آیا ۔جبکہ 14اگست 1947کو حصول پاکستان
کے وقت قائداعظم محمد علی جناح کا مقصد مکمل انقلابی اصلاحات تھا ۔جس میں
برصغیر کے اس خطہ زمین پر واقع تعیلمی ، ثقافتی ، مذہبی اور سیاسی تبدیلی
کرنا مقصود تھا ،اس کے بعد بھی عوامی لیڈر ہونے کے دعوٰی کرنے سیاستدانوں
نے انقلاب کی تمام کوشش کی ہے۔
پاکستان میں انقلاب آیا؟15اگست 1947کو پاکستان میں پہلا انقلاب آیا مگر
ارسطو کے نظریات کی روح سے یہ نامکمل انقلاب تھا کیونکہ اس کے ذریعے
پاکستان میں صرف سیاسی تبدیلی رونماں ہوئی تھی اور لیاقت علی خاں ملک
پاکستان کے وزیراعظم بنے جبکہ ملک کے آئین ،تعلیم اور ثقافت میں کوئی
تبدیلی نہ لائی گئی ۔جبکہ 14اگست تک ملک کے مجاہدوں کا پختہ ارادہ تھا کہ
پاکستان کو مکمل طور پر ایک اسلامی ریاست بنایا جائے گا اور تمام غیر
اسلامی قوانین اور ثقافتوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا ۔ جس طرح روس میں
1817میں مکمل تبدیلی لاتے ہوئے تعیلمی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی
تبدیلیاں لائے-
ارسطو کے انقلاب کی دوسری قسم شخصی انقلاب ہے جس کو شروع سے لیکر آج
پاکستان کی عوام اور عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی پسند کرتے آرھے ہیں
۔15اگست کو چوہدری لیاقت علی خاں کو وزیراعظم بنا کر شخصی انقلاب کا آغاز
کیا گیا اس کے بعد خواجہ ناظم الدین ،حسین شہید سہرور دی ، اسماعیل ابراہیم
چنددیگر ،ملک فیروز خاں اور تا حال جاری ۔اس انقلاب میں چند بر سراقتدار
حکمرانوں کی جگہ کے علاوہ معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاتی اور آخر
کارکچھ دیر بعد عوام ان سے ناراض ہونے کے بعد دوسرے حکمران چننے لگتے ہیں
شخصی انقلاب آئینی اورغیر آئینی طریقے سے آتے رہتے ہیں ۔حسین شہیدسہروردی
،میر ظفر اﷲخاں جمالی ،شوکت عزیز اور موجود وزیراعظم کا انقلاب آئینی ہے
جبکہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں ،یحیی خاں ،ضیاءالحق اور پرپز مشرف کا
انقلاب شخصی اور غیر آئینی انقلاب تھا اس کے ذریعے ملک آئین کے ٹکڑے کرتے
ہوئے ملک میں انقلاب کا ڈھول بجا گیا تھا ۔
ارسطو غیر شخصی انقلاب کو بھی پسند کرتا ہے جس کے ذریعے حکمران کی بجائے
نظام میں تبدیلی لائی جاتی ہے ۔مگر پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ ایسا انقلاب
آج تک پاکستان میں نہیں آسکا ۔کیو نکہ اس کے ذریعے عوامی نمائندگی کا دعوی
ٰ کرنے والے لیڈروں کو کچھ نہیں ملتا سب کچھ عوام کو ہی ملتا ہے۔ ارسطو
طبقاتی انقلاب کا ذکر بھی کرتا ہے جو کبھی پاکستان کی میڈیا میں سننے کو
ملتا ہے ۔مگر کم ہی بحث ہوتی ہے۔ اس انقلاب کے ذریعے برسراقتدار حکمران
طبقوں کے بدلے دیگر عوامی طبقوں کو موقع میسر آتا ہے۔روس کے انقلاب میں
دولت مندوں کی جگہ غریب اور مزدور طبقہ برسراقتدارآیا ۔
پاکستان میں انقلاب کیسے آئے گا؟علم سیاست کے ماہرین اور بانیوں کا خیال ہے
کہ انقلاب کیلئے دوری ہوتا ہے کہ پہلے انقلاب کی سدائے لگانے والوں میں
انقلاب لایا جائے پاکستان میں اس وقت جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ماسوائے
ایک کے تمام حکمران کبھی تبدیل نہیں ۔عالمی رائے کے مطابق پاکستان میں
23خاندان حکومت کرتے آرہے ہیں اور کرتے رہے گئے ۔ اور تمام سیاسی جماعتوں
کا صرف ایک منشورہی نظر آتا ہے حکومت کا حصول اوراپوزیشن کے پنجوں سے نفرت۔
پاکستان میں انقلاب کی سدائے بلند کرنے والوں کو وہ پہلے اپنے اندر انقلابی
تبدیلیاں کرئے اور مناسب وقفے کے بعد الیکشن کے ذریعے شخصی،غیرشخصی اور
طبقاتی انقلاب لائے ۔کیونکہ اگر غیر جانبدارانہ طریقے سے انقلاب کا تجزیہ
کیا جائے تو اس کا مقصد ہمیشہ جمہوریت کا حصول رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شخصی
اور طبقاتی تبدیلی نہ ہونے کی بدولت آج تک کبھی بھی ایسی جمہوریت نہیں آئے
جو عوامی جمہوریت کا دعویٰ کر سکے یا عوام اسے جمہوریت کا خطب دے سکے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہے کہ سیاسی جماعتوں ہیں آہینی ،شخصی اور
طبقاتی تبدیلیوں کیلئے اقدامات کروائے اور تمام سیاسی جماعتوں میں الیکشن
کو لازمی قرار دے تا کہ پاکستان کی عوام کو جو خوشخبری 63سال میں نہیں سنی
جلد سن سکتے خوشخبری کا نام جمہوریت انقلاب ہے- |