رحمان ملک کی اعزازی ڈگری

کراچی یونیورسٹی نے رحمان ملک کو اعزازی ڈگری دے دی ہے۔یہ ڈگری رحمان ملک کو ان کی سماجی،سیاسی اور دہشت گردی کی جنگ میں ”گراں قدر“ خدمات کے اعتراف میں دی گئی ہے۔ سبحان اللہ۔ مبارک ہو۔

دراصل اب ہمارے عوام امریکہ کی منافقت اوراس کے مسلم دشمن رویہ سے ا س قدر بد دل اور بد گمان ہو چکے ہیں۔ کہ دہشت گردی کا لفظ ادھر کسی بات چیت میں استعمال ہوا اور ادھرذہن فوراً امریکہ کی طرف گیا۔اب اس ڈگری کے بارے میں ہی لے لیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماجی اور سیاسی کے الفاظ تو محض ’دہشت گردی‘ کے خوفناک لفظ کو پردے میں چھپانے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں ۔ورنہ درحقیقت یہ ڈگری دہشتگردی کی جنگ میں ”گراں قدر“خدمات ہی کاثمرہ ہے۔ اور دہشت گردی کا تعلق امریکہ سے ہے۔لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈینگی مچھر امریکہ نے ہی سی آئی اے کے ذریعہ پاکستان میں پھیلایا ہے۔

پہلے ہم سمجھا کر تے تھے کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کسی علمی مسئلے میں نمایاں کارکردگی پر ہی دی جاتی ہے۔اب پتہ چلا کہ یہ تو سماجی، سیاسی اوردہشت گردی کی جنگ میں نمایاں خدمات پر بھی مل جاتی ہے۔دہشت گردی کے میدان میں جائزہ لیں۔ تو رحمان ملک سے زیادہ گراں قدر خدمات ممکن ہے حسین حقانی کی ہوں۔ایسی ڈگری تو انہیں بھی ملنی چاہئے۔ خیرجب بات ” گراں قدر“ خدمات کی ہو رہی ہے تو شوکت عزیز کہاں رہ گئے؟ اور مشرف تو سب پرحاو ی رہے ہیں۔انہیں تو تین چارڈگریاں جہاں بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں کی بنیاد پر فوری طور پر ارسال کردی جائیں تو ان کی بھی حق رسی ہو سکتی ہے۔ اور اللہ رکھے ہمارے۔ایک زورداری سب پہ بھاری۔ کو نساکارنا مہ ہے ۔جو ا ن کے ہاتھوں ا نجام تک نہ پہنچا ہو؟کیسے کیسے پاپڑ بیلے ہیں انہوں نے ۔ سال ہا سال جیلیں کاٹیں ۔ مرد حر کا خطاب حاصل کیا ( شاید وہ خطاب ابھی تک ان ہی کے پاس موجودہو۔) بیوی بچوں کی جدائی کاعذا ب بھی سہے۔کرپشن کے بھاری الزامات جھیلے ۔ دس پرسنٹ سے سو پرسنٹ تک کے طعنے برداشت کئے ۔بی بی کی شہادت کے بعد کا خلا انتہائی ہوشیاری سے پر کیا۔ پارٹی چیرمینی کی بجائے محض معاﺅنت کے عہدہ پر ہی اکتفا کرلیا۔ عوامی مخالفت کے طوفان میں مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل قائم رکھنا۔ ”مجبوراً“گلے میں پڑا ڈھول بجانا۔کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔اور یہ کہ محض شہید بی بی کی روح کو خوش ر کھنے ۔اور ان کا مشن پورا کرنے کے لئے۔ ان کی کانٹوں بھری بھاری امانت کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھارکھا ہے۔ اوروہ منفرد قسم کی عجیب اور عظیم قربانی ۔صرف شہید بی بی کی خوشی کے لئے کہ اپنے سگے بیٹے کو دوسرے خاندان کا نام دے کر خود سے دور کردیا۔ اس طرح تو ان کا حق بنتا ہے کہ آدھا درجن ایسی اعزازی ڈگریاں تو ا ن پر فوراً ہی نچھاور کر دی جائیں۔اور جو ”NRO “ کا بھاری اور ”گراں قدر“شہتیرانہوںنے تھام رکھاہے۔ اس کے صلے میں آدھا درجن ڈگریاں اوران کے لئے محفوظ کرکے رکھ لی جائیں توکوئی مضائقہ نہیں۔

خیر! اس طرح تو ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ہر سیاسی پارٹی کاسربراہ توسیاست میں ڈگری کا حقدارہوگا ہی۔ ہرتیزطرار سیاستدان بھی اپنی اپنی اعزازی ڈگری کے لئے درخواست ضرور داغ دے گا۔ پارٹیوں کے سربراہوں کو توسیاست میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کی پیشگی مبارک باد ہو!ایدھی صاحب اور انصار بر نی کوسماجی خدمات پر ڈگری ملنی ہی چاہئے۔ ضرور ملنی چاہئے۔ ا لبتہ بلور صاحب کی ڈگری مشکوک ہے ۔جب تک ریلوے کی جان اٹکی رہے گی۔ ان کی ڈگری بھی لٹکی رہے گی۔

اس طرح کچھ عرصہ بعد ہمارے ملک میں ہر طرف ڈگریاں ہی ڈگریاں ہو جائیں گی ۔ ڈگریوں کی اس بھیڑ میں بیمار آدمی کے لئے دوائی اور علاج والا ڈاکٹر ڈھونڈنا مشکل ہوجائے گا۔ ممکن ہے پیشے کی پہچان کے لیے اصلی ڈاکٹر یعنی علاج معالجہ والا ڈاکٹر اپنے نام سے پہلے میڈیکل کی نسبت سے ’ایم ڈاکٹر‘ اور اعزازی ڈگری والا ’کاغذی ڈاکٹر‘ کی بجائے پیپر کی نسبت سے ’پی ڈاکٹر‘لکھے۔

ایک وقت تھا کہ گریجویٹ تو دیکھنے کو نہ ملتے تھے۔لوگ خط لکھنے پڑھوانے چل کر جاتے تھے۔پڑھے لکھے لوگ نام کے ساتھ اپنی تعلیمی ڈگری بھی فخر کے ساتھ لکھا کرتے تھے ۔جیسے’ ’احسان بی اے“ ۔ پھر جب پڑھے لکھے زیادہ ہو گئے تو بی اے وغیرہ لکھنا چھوڑ دیا۔ اسی طرح پہلے حاجی بہت تھوڑے ہوتے تھے ۔ اور حج چونکہ ایک بڑی سعادت اور فخریہ سند ہے۔اس لئے لوگ نام سے پہلے تبرک کے طور پر ’حاجی‘ لکھا کرتے تھے۔ بعد میں عام حاجی بہت زیادہ ہو گئے اور ’الحاج‘ بھی ہونے لگ گئے ۔تو شرفاءکو حاجی لکھتے ہوئے شرم آنے لگی اور انھوں نے نام کے ساتھ حاجی لکھناچھوڑدیا۔ چلو زیادہ ڈگریاں ہونے سے یہ فائدہ تو بین الاقوامی طور پربہر حال ہمیں ہوگا ہی کہ بہت زیادہ ڈاکٹریٹ ڈگری کے حامل لوگ ملک میں نظر آئیں گے۔ تو تعلیمی لحاظ سے دنیا میں ہمارا وقاربھی بہت بلندہو جائے گا۔ سب کو مبارک ہو۔

اور آ خر میں یہ بھی بتا دوں کہ رحمان ملک کے اعزاز میں منعقدہ ڈگری حوالگی کی اس تقریب میں یہ اعلان بھی کیا گیا۔ کہ یونیورسٹی اپنے ایسے سپوت طلبا پرہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔غالباًسنہری حروف میں ان کانام تو لکھا ہی جا چکا ہو گا۔ رحمان ملک صاحب آپ کو ایک دفعہ پھر بہت بہت مبارک ہو۔
Rao Muhammad Jamil
About the Author: Rao Muhammad Jamil Read More Articles by Rao Muhammad Jamil: 16 Articles with 12294 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.