کائنات کی وسعتوں میں انسان کا مقام ہمیشہ ایک سوال رہا
ہے۔ وہ کیا ہے، کہاں سے آیا ہے، اور اس کی غایتِ حیات کیا ہے؟ انہی سوالات
کے ضمن میں قدیم صحیفوں، فلاسفہ اور صوفیاء نے جو کچھ بیان کیا، وہ ایک
مشترکہ روحانی سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے: انسان محض مٹی کا پیکر نہیں
بلکہ ایک شعور یافتہ امانت دار ہے۔ ایک ایسا وجود جسے ایک مقصد کے ساتھ
زمین پر بھیجا گیا ہے۔
آغازِ کائنات سے پہلے نہ زمین تھی، نہ آسمان، نہ بارش کی رم جھم تھی، نہ
سبزہ، نہ ہی وہ دریا جو آج انسانوں کے لیے زندگی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
پھر کسی نادیدہ قدرت نے زمین کو بچھونا اور آسمان کو سائبان بنایا۔ بارش کو
امرِ رحمت کی صورت میں اتارا، اور ان سے رزق کے چشمے جاری کیے تاکہ زندگی
نشوونما پائے۔
لیکن انسان، جو خود اسی کائنات کا ایک جزو ہے، اُسے اس کائنات کی اشیاء میں
ممتاز حیثیت دی گئی۔ وہ نہ صرف ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے والا ہے بلکہ اُس
پر ذمہ داری بھی عائد کی گئی ہے کہ وہ اس حسنِ ترتیب اور توازن کو قائم
رکھے۔ یہ ذمہ داری اس کے شعور، اس کی عقل، اور اس کے عمل میں مضمر ہے۔
مگر یہی انسان ہے، جو شک اور غرور کے سنگھاسن پر بیٹھ کر اس خالقِ نامعلوم
کو چیلنج کرتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے: ‘‘اگر یہ سب قدرت کی کاریگری ہے، تو میں
کیوں نہ کچھ ایسا ہی کر دکھاؤں؟‘‘ اور یہی مقام ہے جہاں اُس کے لیے تنبیہ
ہوتی ہے کہ اگر شک ہو تو ایک کلام جیسا ہی کلام لے آؤ، اور اگر ایسا نہ کر
سکو، اور ہرگز نہ کر سکو گے، تو اپنے فہم کی حد جان لو۔
تخلیق کی ابتدا، انسان کی معنوی گہرائی، اور کائناتی نظم کی پیچیدگی — یہ
سب کچھ کسی بے ترتیب حادثے کی نشانیاں نہیں۔ یہ سب کسی باشعور منبع کی طرف
اشارہ کرتے ہیں۔ وہ منبع جو صرف مادی وسائل نہیں، بلکہ روحانی اصولوں کی
بنیاد پر کائنات کو چلاتا ہے۔
یہاں تک کہ جب انسان کو زمین پر بطور نائب مقرر کرنے کی بات آتی ہے، تو ایک
اہم مکالمہ ابھرتا ہے: فرشتے جیسے نورانی وجود حیرت سے سوال کرتے ہیں کہ
کیا واقعی وہ مخلوق جو زمین کو فساد اور خون سے رنگ دے سکتی ہے، خلافت کے
لائق ہے؟ مگر جواب میں صرف ایک بات کہی جاتی ہے: "میں وہ جانتا ہوں جو تم
نہیں جانتے"۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کا مقام سمجھ میں آتا ہے — اس کے
پاس علم ہے، فہم ہے، ارادہ ہے، اور سب سے بڑھ کر وہ قوتِ انتخاب ہے۔
یہ انتخاب ہی اس کا امتحان ہے۔ انسان اگر چاہے تو اس کائنات کو جنت بنا
سکتا ہے، اور اگر چاہے تو اسے دوزخ میں بھی بدل سکتا ہے۔ لیکن اُس کے ہاتھ
میں جو زمینی طاقت ہے، اُس کا ماخذ آسمانی ذمہ داری ہے۔ یہ خلافت ایک امانت
ہے، نہ کہ ایک اقتدار۔
یوں ان روحانی اشارات سے ہمیں ایک جامع پیغام ملتا ہے کہ اے انسان، اپنی
اصل کو پہچان، زمین کو فساد سے پاک رکھ، فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، اور علم
و عمل کے اس سنگم پر اپنی موجودگی کو بامقصد بنا۔
|