بسم الله الرحمن الرحيم
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي – وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي – وَاحْلُلْ عُقْدَةً
مِّن لسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي
سورة البقرة 218
بے شک وہ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کے
راستے میں یہی لوگ ہیں جو امید رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور اللہ بہت
بخشنے والا ہے نہایت رحم کرنے والا ہے۔
یہاں میں آپ سے دو لفظوں کی بات کرونگی ہجرت و جہاد ۔ پہلا لفظ ہجرت یہ
اردو میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا مستقل
طور پر گھر بار چھوڑ کر ۔ اور دوسرا لفظ "جہاد" عام طور پر الله کے راستے
میں جنگ کرنا ۔
کبھی کبھار ہم لفظوں کی گہرائی میں نہیں جاتے اور خزانے سطح پر نہیں ملا
کرتے سچّے موتیوں کے لیے تو گہرائیوں میں اترنا ہی پڑھتا بڑی محنت لگن کوشش
کے بعد حاصل
ہوتے ہیں سچّے موتی۔
اب ذرا آیت کو دوبارہ دیکھتے ہیں ۔
آیت کی ابتداء لفظ " اِنّٙ " سے ہو رہی ہے ۔ جب بھی آیت کی ابتداء لفظ "
اِنّٙ " سے ہوتی ہے وہاں بات پر زور دیا جا رہا ہوتا ہے ۔
وہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے جہاد کیا اور جنہوں نے ہجرت کی وہ امید
رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور اللہ بہت بخشنے والا ہے نہایت رحم کرنے والا
ہے۔ وہ جو ایمان لائے ایمان کے فوراٙٙ بعد دو بہت بڑے مطالبات کیے جا رہے
ہیں۔
اگر جہاد صرف وہی ہے جو ہم سمجھتے ہیں تو جہاد اور ہجرت تو بڑے مشکل
احکامات ہیں ان احکامات کی تکمیل بہت مشکل ہے اور ہر مسلمان اس کی ادائیگی
کر بھی نہیں سکتا پھر اس کے بعد ہی کہا جا رہا ہے "یہی لوگ ہیں جو امید
رکھتے ہیں۔" ایمان لانے کے بعد تو ہم سب ہی الله کی رحمت کے امیدوار ہیں۔
قرآن ایک ایسی کتاب ہے کے بظاہر تو لگتا ہے اسکی ہر بات دوسری بات سے مختلف
ہے لیکن اندر کہیں ان سب کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
اللّه پاک فرماتے ہیں کہ قرآن کی ہر آیت ایک دوسرے سے جوڑی ہوئی ہے اللّه
تعالٰی نے یہ بات قرآن کا نیچر بیان کرنے کے لیے کہی ہے۔
قران انسانوں کے لیے پہیلی کی طرح ہی ہے سطح سے ہمیں اصل خزانے نہیں ملنے
والے اصل خزانے تو گہرائیوں میں مدفن ہیں۔
اکثر پہلیوں کے حل ان کے آخر میں موجود ہوتے ہیں۔ چلیں آئیں اس آیت میں
دیکھتے ہیں۔
اس آیت کے آخر میں اللّه پاک نے اپنے دو صفاتی اسماء الحسنیٰ بیان کیے ہیں۔
قرآن میں کبھی آتا ہے ( وھو الغفور الرّحیم ) "اور وہ معاف کرنے والا ہے
اور رحمت کرنے والا ہے ۔"
کبھی آتا ہے (انّٙ ھو الغفور الرّحیم) بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔
جہاں انّٙ ھو کا ذکر ہے وہاں ضمانت دی جارہی ہے کہ ایسا ہو گا ہی ہوگا ۔
*الغفور* : یہ معافی کے جواب میں آتا ہے یعنی ہم نے گناہ کیا اور پھر ہم نے
توبہ کی اب اللہ نے ہمیں معاف کر دیا وہاں جو اسماء العظیم استعمال ہوگا وہ
غفور ہے پر یہاں تو ایمان والے ہجرت کرنے والے مہاجرین، یا الله کے رستے
میں نکلنے والوں کا ذکر ہے لیکن یہاں تو کوئی غلطی ہوئی نہیں یہ تو بہت بڑی
بڑی صفات والے لوگ ہیں ان کے لیے غفور کا لفظ آیا اور غفور کے فوراٙٙ بعد
رحیم کا۔۔۔
اب یہ بات ذرا سمجھنے کی ضرورت ہے کے رحیم کے معنیٰ کیا ہیں؟رحیم کا روٹ
ورڈ رحم ہے ر ح م ہے یعنی ماں کا پیٹ میں جس مقام پر بچہ تخلیق پاتا ہے
ہوتا ہے۔ اسے رحم کہا جاتا ہے قرآن پاک میں اکثر مقامات پر غفوز (معاف کرنے
والے) کے فورا بعد رحیم کا ذکر آتا ہے یہ دو مختلف نام ہیں اور ان کے ہم پر
دو مختلف اثرات ہیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
|