الحاد اور مذہب

الحاد خلاف عقل ہے کیونکہ عقل اپنی بنیادیں خود کھود کر اپنی نئی عمارت تعمیر کرتی ہی رہتی ہے۔آج کی عقل کل اپنا تصور بدل لے گی۔ لہذہ عقل کی بنیاد پہ الحاد کے حق میں دلیل دینا عقل کے خلاف ہے

الحاد اور مذہب طارق ظفر کے قلم سے

الحاد خلاف عقل ہے کیونکہ عقل اپنی بنیادیں خود کھود کر اپنی نئی عمارت تعمیر کرتی ہی رہتی ہے۔آج کی عقل کل اپنا تصور بدل لے گی۔ لہذہ عقل کی بنیاد پہ الحاد کے حق میں دلیل دینا عقل کے خلاف ہے

میں نے اپنے ناقص علم اور تجربے کی روشنی میں الحاد اور مذہب کے تناظرمیں عقلی اور سائنسی بنیادوں پہ بہت غور و فکر کیا اور ڈھیروں دلائل کا مطالعہ کیا، سائنسدانوں، فلسفیوں اور مذ ہبی علماء کے افکار کا مطالعہ کیا ، مباحث و تقاریر سنے، قران مجید کی روشنی میں سب کا تقابلہ کیا ، مضامین شائع ہوئے، ٹی وی ٹاک شو میں اپنے کام کا لب لباب پیش کیا۔ اللہ کے فضل سے تمام دلائل و براہین مجھے اللہ سے قریب تر کرتے گئے۔ فلسفے کے نظریات سائنس نے باطل کر دیے او ر سائنس کے نظریات خود سائنس نے باطل کیے۔ اور کیے ہی جا رہی ہے۔۔۔ حواس و آلات کی محدودیت عقل کو دھوکہ ہی دیتی رہی ہے۔ سائنس کائنات کے بارے میں عقل سے ایک مسئلہ حل کرنے کے بعد کئی اور لااینجل مسائل میں الجھ جاتی ہے اور مسئلہ حل ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یعنی سارا علم سارے زمانوں میں جزوی رہا ہے جس کی بنیاد پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس کی ایک تازہ مثال ہبل دوربین کے مشاہدات کی بنیاد پر فلکیات کی سائنس میں حساب کتاب کر کے 13اعشاریہ 8 بلین سال پہلے بگ بینگ ہونے کاایک پورا نظریہ بنا لینا اور پھر جیمز ویب دوربین کے ایک بعید ترین کہکشاں کی غیر متوقع بناوٹ کے مشاہدے کے بعد سارے حساب کتاب ، کمپیوٹر سیمولیشن وغیرہ کا غلط ہو جانا۔۔۔۔اب سائنس اس الجھن کا شکار ہے کہ کیا بگ بینگ ہوا بھی تھا یا نہیں یا پھر شاید 26 بلین سال پہلے ہوا ہو! اب ایک نئی تھیوری بنے گی اور شاید کچھ عرصے کے بعد وہ بھی رد کردی جائے۔
ایسی اور بہت سی مثالیں گزشتہ صدی میں سامنے آئی ہیں جن کے بارے میں تفصیلات میں اپنے گزشتہ مضامین میں لکھتا رہا ہوں۔ افلاطون اور ارسطو کے زمانے سے آج تک انسان یہی سمجھتا رہا ہے کہ اب کائنات کی گتھی کا سرا ہاتھ آ گیا ہے لیکن ہر زمانے کا مستقبل کوئی اور ہی کہانی سناتا رہا ہے۔ ہمارے زمانے میں ہی اتنی متنوع اور متضاد سائنسی مشاہدات ہمارے جیتے جاگتے یہی کہانی سنا رہے ہیں۔ آج سے پانچ سو ، ہزار سال کے بعد کیا معلوم ہوگا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، یہ بالکل اس طرح ہے جیسے نیوٹن جیسا سائنسداں اپنے زمانے یعنی 17 ویں صدی میں انجن سے چلنے والی گاڑی، ہوا میں اڑنے والے جہاز ، بجلی سے جلنے والے بلب اور ریڈیو، ٹی وی ، کمپیوٹر جیسے محیر العقول چیزوں کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا! اگر آج نیوٹن زندہ ہو کرآ جائے تو وہ ایک ایسے طلسم کدے میں ہوگا جس میں قدم قدم پر ہزروں سوال اس کو پریشان کر کے رکھ دیں گے۔۔۔۔سائنس کی ترقی اسے جادو معلوم ہو گی۔
سید قطب صاحب نے سورہ طور آیت 11 کی تشریح میں کیا خوب لکھا ہے:
"کسی بھی گہرے جائزے سے معلوم ہوگا کہ تمام لوگوں کے نظریات اور معتقدات افسانے ہیں بلکہ بڑے بڑے فلسفے انسانی تاریخ کے وہ بڑے فلسفیانہ تصورات جن پر انسان ناز کرتے ہیں ، وہ بھی بچوں کا کھیل معلوم ہوتے ہیں۔ اسلامی تصور حیات اور عقائد میں جو حقائق نہایت ہی سادگی ، قوت ، صفائی اور سنجیدگی سے بیان کئے گئے اور خصوصاً وہ باتیں جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں وہ سب فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور وہ فطرت کے ساتھ بغیر کسی مشکل کے ملتی ہیں کیونکہ قرآن کا مطالعہء فطرت نہایت حقیقت پسندانہ ہے۔ اس سے کائنات کے عجوبے کی بھی خوبصورت تفسیر ہوتی ہے اور اس تفسیر کے مطابق اس کے خالق کائنات کے ساتھ تعلق کی بھی تشریح ہوتی ہے اور یہ سب تصورات اور تشریحات حقیقت پسندانہ بھی ہیں۔
جب میں فلاسفہ کے خیالات پڑھتا ، بڑے بڑے فلاسفہ کے خیالات دیکھتا ہوں کہ اس کائنات کے عجوبے کے حل میں وہ تھک کر چور چور ہوگئے اور وہ اس کی صحیح تفسیر نہ کرسکے نہ ہی کائنات کے مختلف حقائق کو باہم مربوط کرسکے۔ ان کے خیالات اس طرح معلوم ہوتے ہیں جس طرح ایک چھوٹا بچہ ریاضی کا کوئی مشکل مسئلہ حل کرنے کی سعی کرے۔ یہ اس لئے کہ میرے سامنے اس مسئلے کا قرآنی حل موجود تھا جو واضح ، صاف ، سہل فطری اور دلپذیر تھا جس میں کوئی ٹیڑھ نہ تھی نہ پیچیدگی تھی اور نہ تعقید۔ قرآن نے اس کائنات کی جو تشریح کی ہے وہ اس طرح ہے جس طرح ایک شخص اپنی بنائی ہوئی مشینری کی تشریح کرتا ہے۔ رہے فلاسفہ تو وہ اس کائنات میں سے چند جزوی حقائق لے کر ان کو کل پر منطبق کرتے ہیں اس لئے وہ بری طرح فیل ہوجاتے ہیں اور ان کے تصورات تضادات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جب انسان عظیم فلاسفہ کے نظریات پڑھتا ہے تو انسان کے تصورات میں تمام مسائل میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔ ۔ دراصل یہ تصورات مسئلہ کائنات کے حل کے لئے انسانی کوششیں ہیں اور اس کے بعد جب انسان قرآنی آیات پر غور کرتا ہے جو اس موضوع پر ہوتی ہیں تو اس کے ذہن میں آہستہ آہستہ روشنی داخل ہوتی ہے۔ اس کا قرار وثبات اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنی جگہ پر درست رکھی ہوئی ہے۔ ہر بات اپنی جگہ پر ہے۔ ہر حقیقت اپنی جگہ بیٹھی ہوئی ہے اور کسی چیز میں کوئی اضطراب نہیں ہے۔ انسان فی الفور محسوس کرلیتا ہے کہ وہ حقیقت تک پہنچ گیا۔ اسے آرام اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ اس کا دل آرام اور قرار پکڑتا ہے۔ عقل مطمئن ہوجاتی ہے۔ ہر قسم کی الجھنیں دور ہوجاتی ہیں۔ تمام مسائل حل ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ ایک واضح حقیقت تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔"
کسی شے پر سائنسی تحقیق شے کی تعریف کو بدلتی جاتی ہے۔اس کی صورتوں کا عقلی اختلاف اس کی حقیقت پر اثر انداز نہیں ہوتے یعنی حقیقت ہمارے اخذ کیے ہوئے تصور سے ماوراء ہے۔ ستارے کی مثال، ہر ستارہ سورج ہے۔یعنی پہلے ستاروں کو ایک الگ شے سمجھا جاتا تھا، اب دوربین سےپتہ چلا کہ ہر ستارہ سورج ہے۔ اور کچھ ستاروں ک طرح نظر آنے والی اشاء سورج نہیں بلکہ اربوں سورجوں پر مشتمل کہکشائیں ہیں۔ یا جراثیم ، وائرس کی دریافت کے بعد طریقہء علاج میں انقلابی تبدیلی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔کائنات کی وسعت کے مقابلے میں سائنس کا علم ایسا ہے جیسے سمندر سے ایک چمچہ پانی کا نمونہ لے کر یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ سمندر میں کوئی وہیل مچھلی نہیں پائی جاتی۔
الحاد خلاف عقل ہے کیونکہ عقل اپنی بنیادیں خود کھود کر اپنی نئی عمارت تعمیر کرتی ہی رہتی ہے۔آج کی عقل کل اپنا تصور بدل لے گی۔ لہذہ عقل کی بنیاد پہ الحاد کے حق میں دلیل دینا عقل کے خلاف ہے۔
احمد جاوید صاحب کی ایک ویڈیو کلپ سے میں متفق ہوں ۔ اس کا لب لباب درج ذیل ہے:
"الحاد دلائل کی بحثوں سے نہیں ختم ہو گا ۔ ہمیں الحاد کی دلیل بننے سے رکنا ہو گا ۔یعنی الحاد کے سہولت کار نہ بنیں ۔ سام ہیرس کے پاس خدا کو نہ ماننے کی دلیل مسلمان ہیں ۔ آج کل کے اللہ کو ماننے والے معاشروں کے کرتوت الحاد کے لیے دلیل بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ایک مثالی اسلامی معاشرہ بنا کے دکھا دیں تو پھر کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہ جائے گی۔
مذہب کی رد میں دلیل کے طور پر ہمارے اعمال پیش کر دئیے جاتے ہیں ۔ہر خرابی کا بنا بنایا ثبوت ہم آپ یعنی مسلمان ہیں۔"



 

Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 10 Articles with 8267 views A enthusiastic reader and writer. Interested in new discoveries, inventions, innovations in science and their place and effect in society and religio.. View More