بسم الله الرحمن الرحيم
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي – وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي – وَاحْلُلْ عُقْدَةً
مِّن لسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي
سورة البقرة 218
بے شک وہ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کے
راستے میں یہی لوگ ہیں جو امید رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور اللہ بہت
بخشنے والا ہے نہایت رحم کرنے والا ہے۔
ہجرت = ه ج د = ہجر کہتے ہیں ترک کرنا،چھوڑ دینا،الله کی خاطر کچھ چھوڑ
دینا ۔
ہجرت 2 طرح کی ہوتی ہے۔
1: ہجرتِ عام : جس میں انسان اللہ کی خاطر اللہ کے منع کیئے ہوئے کچھ کاموں
کو چھوڑ دیتا ہے
2: ہجرتِ خاص : بخاری کی روایت ہے، اور خاص کیا ہے انسان اپنا گھر بار وطن
اور ملک اللہ اور رسول کے لیے چھوڑ دے۔
کسی مطلوبہ چیز کے حصول کے لیے سخت محنت طاقت مشقت لگانا
چھوڑ دینا یہ دو لفظ بہت آسان ہے لکھنا اور کہنا پر اصل زندگی میں جب ہم
ابتداء کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی مشکلات پیش آتی ہے پر ان مشکلات سے گھبرانا
نہیں ہے ہجرت ایک مستقل حالت کا نام ہے۔ ہم سب اپنی جانوں پر گواہ ہیں۔
ہمیں پھر مائیکرو لیول پر جا کر اپنے ہر عمل کو دیکھنا ہوتا ہے ۔ ہمیں اپنی
بری عادتیں چھوڑنی ہوتی ہیں۔ بری صحبتیں چھوڑنی ہوتی ہیں۔ ہمیں " نا " کہنا
آنا چاہیے ( پتہ ہے کیوں کیونکہ ہم برائی چھوڑ دیتے ہیں پر برائی ہمیں نہیں
چھوڑتی وہ صحبتیں وہ عادتیں اور وہ لوگ ہمیں بار بار بلاتے ہیں اور جب ہم
منع کرتے ہیں تو پہلے پہل تو مزاق اڑایا جاتا ہے۔ پھر طنز کیے جاتے ہیں اور
پھر رویے بہت سخت ہو جاتے ہیں اس قدر سخت کے تکلیف بیاں سے باہر ہوتی ہے
اور گماں سے آگے۔
پھر ہم تو انہیں چھوڑ دیتے ہیں پر وه لوگ ہمیں نہیں چھوڑتے ہمیں تکلیف دینا
نہیں چھوڑتے اسکے لئے بڑی بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللّه کی نصرت اور
ہماری بہادری ہمیں اللہ کے راستے پر جمائے رکھے گئی ۔ ہم نے ہر کام کرتے
وقت اپنی نیت کا جائزہ لینا ہے ؟
نیت کیا ہوتی ہے؟
ہر وہ ارادہ جو ہمارا عمل کرنے سے پہلے ہوتا ہے۔
جیسے کے دو لوگ ہیں وہ ایک جگہ کام پہ جاتے ہیں۔ ایک صرف اس ڈر سے جاتا ہے
کہ اسکا بوس اسے نکال نہ دے۔ اور دوسرے کو اپنی جوب پسند ہے وہ اسکی ہوبی
ہے۔ اب ان دونوں میں فرق کیا ہے۔۔۔؟ دونوں ہی کام کر رہے ہیں اپنی ڈیوٹییذ
انجام دے رہے ہیں پر ڈر کر کرنے والا " ہر وقت بیزاریت،جبر اور کوفت کا
شکار ہے۔
جبکہ خوشی سے کرنے والا مطمئن ہے ۔
بس دونوں کی سوچ کا فرق ان کے عمل اور زندگی پر مختلف اثرات چھوڑتا ہے۔
ہم نے یہ ہجرت صرف اس لیے نہیں کرنی کے ہمیں دوزخ ملے گی اللہ ناراض ہوگا ۔
بلکہ ہم نے ہجرت اس لیے کرنی ہے کہ ہم اپنا تعلق اپنے رب سے مضبوط کر سکیں۔
ہماری عبادت کا مقصد کیسی نیگیٹو سے دور جانا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمارا
مقصد پوزیٹو کے نزدیک جانے کا ہونا چاہیے
اپنے ہر عمل سے پہلے سوچنا کے میرا ارادہ کیا ہے۔ کیا میں یہ نیکی اسلئے تو
نہیں کر رہا کہ لوگ مجھ سے امپریس ہوں ۔ اگر وجہ یہ ہے تو اسے ریاکاری کہتے
ہیں۔
کیا اس معمل سے میرا تعلق بہتر ہو گا یا بگڑ جائے گا۔
ہم یہاں نیت کی بات کیوں کر رہے ہیں کیونکہ نیتیں ہی ہمارے اعمال کو سونا
کرتی ہیں یا پھر راکھ اور خاکھ۔۔
چلیں یہ بات ہم مثال سے سمجھتے ہیں
ایک شخص کسی دوسرے کے لیے گلدستہ لے کر آتا ہے انتہائی حسین گلدستہ اب کسی
بناء پر وہ اسے نہیں دے پاتا اور آپکو دیکھ کر کہتا ہے کہ لایا تو میں کسی
اور کے لیے تھا پر اب یہ آپ لے لیں ۔ تو کیا اب آپکی غیرت گوارہ کرے کہ آپ
وہ گلدستہ لے لیں ۔ کیونکہ آپکو اسکی نیت کا پتہ تھا۔
تو اب آپکو کیا لگتا ہے جب ہم کوئی نیکی کا کام تو کرتے ہیں پر اس کے پیچھے
ہماری انٹینشنس الله کی رضاء نہیں ہوتی ۔ ہم دنیاوی فوائد کو فوقیت دیں تو
پھر آخرت میں اسکی کوئی جزاء نہیں اللہ نے وہ قبول ہی نہیں کرنی
کیونکہ وہ اللہ کے لیے نہیں تھی ۔ تو پھر ہمیں کیسے پتہ چلے کے ہماری نیت
ٹھیک ہے یا نہیں ؟
اس سب کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ جب آپکوئ نیکی کریں تو ذرا خیال کریں
اگر میں یہی نیکی کہیں تنہائی میں کرتا تو مجھے کہیں افسوس تو نہیں ہوتا دل
تنگ تو نہیں پڑتا مجھے معاشرے اور لوگوں کا خیال تو نہیں کسی کے ساتھ احسان
کر کے مجھے صلہ کی تو امید نہیں (یعنی ترکِ گناہ ، برائی چھوڑنا یہ سخت
محنت مشقت اس لئے تو نہیں کے بس لوگوں میں اپنی دهاگ بیٹھانی ہو ۔۔۔۔اگر
مقصد صرف اللّه کی رضاء ہے تو مبارک ہو آپکو آپ سیدھے راستے پر ہیں اللّه
آپکو استقامت عطاء فرمائے اللّه پاک اپکی ہجرت قبول فرمائے۔۔۔امین
جاری ہے ۔۔۔۔۔
|