ہمارے سرکاری سکولوں اور کالجوں کی عمارات صبح چند گھنٹوں
کے لئے مصروف ہوتی ہیں۔ بقیہ سارا دن ان عمارتوں میں یا تو الو بولتے ہیں
یا پھر راکٹ آ جاتے ہیں جو اگلے دن سکول یا کالج کھلنے تک محو پرواز رہتے
ہیں۔ سرکاری سکول بچوں کے جانے کے بعد خالی ہوتے ہیں، کوئی بھولے سے بھی
وہاں سے نہیں گزرتا اس لئے راکٹ بے خوفی سے وہاں محو پرواز رہتے ہیں۔ ان
راکٹوں کو پولیس بھی کچھ نہیں کہتی۔شکایت بھی کریں تو بھی انہیں نہیں پکڑتی۔
میں نے ایک پولیس والے سے پولیس کے اس تغافل کے بارے پوچھا تو کہنے لگا ۔ان
راکٹوں کو چھیڑنا تو اپنے گلے ایک مصیبت ڈالنے والی بات ہے۔ ان کی پرواز
روکنا تو انہیں ہلاک کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نشے کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ
اس کے بغیر ان کی حالت غیر ہونے لگتی ہے۔ اگر کبھی انہیں گرفتار کر لیں تو
نشہ خود خرید کر ان کی حاجت پوری کرنا پڑتی ہے، وگرنہ مر جائیں تو گھر والے
ہم پر قتل کا مقدمہ بنوا دیتے ہیں۔ اس لئے ہم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے
ہیں۔ دوسرا حکومت نے جب پندرہ بیس گھنٹوں کے لئے ان کے لئے خصوصی کرم کرتے
ہوئے سرکاری طور پر آرام کی جگہ، خالی سکول یا کالج کی صورت میں مہیا کی
ہوئی ہے تو ہم ان کی سہولت واپس لینے والے کون۔
نوڈیرو ، لاڑکانہ مرحوم بھٹو صاحب کا شہر ہے۔ بھٹو صاحب کا شہر ہواور وہاں
ذہین لوگ نہ ہوں ، یہ کیسے ممکن ہے۔ اس شہر کے ایک سکول کے ہیڈماسٹر بھی
سکول کی عمارت کو خالی رکھنے کا سوچ کر پریشان تھے۔ ان کی مہربانی کہ انہوں
نے آنے والی چھٹیوں میں کلاس رومز کو کام میں لانے کے لئے اپنے سکول کو
پیاز کے گودام میں بدل دیااور منطق یہ دی کہ اب سکول میں دو ماہ کی چھٹیاں
ہونے والی ہیں ، کلاس رومز خالی ہوں گے ، سو میں نے سوچا کہ انہیں استعمال
میں لایا جائے، البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ خالی جگہ دیکھ کر وہاں جن
اور بھوت بھی قابض ہو جاتے ہیں،جنہیں نکالنا حکومت کے لئے بھی ممکن نہیں
ہوتااور اگر ان جب بھوتوں کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو تو پھر معاملہ
جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔جی ہاں یہ نوڈیرو کے نواحی گاؤں علی شیر
کھوکھر میں واقع گورنمنٹ پرائمری سکول ہے جہاں ہیڈ ماسٹر صاحب کی مہربانی
سے اب پیاز ہی پیاز ہے ۔ کمبخت سوشل میڈیا والے بھی عجیب ہیں انہوں نے ایک
وڈیو بنا کر یو ٹیوب پر اپ لوڈ کر دی ہے۔ جب وہ وڈیو بنا رہے تھے تو ہیڈ
ماسٹر صاحب جن کا نام غلام اﷲ کھوکھر ہے ، انہیں وڈیو بنانے سے روکتے رہے۔
مگر ظالموں نے نہ صرف وڈیو بنائی بلکہ سکول کے مقرر سات اساتذہ میں تین کی
موقع پر موجودگی کی فوٹو بنا کر باقیوں کو غیر حاضر بھی بتایا۔اس وڈیو میں
انہوں نے محترم ہیڈ ماسٹر صاحب کے اچھے خیالات اور شاندار جذبات کو توڑ
مروڑ کر اس طرح پیش کیا ہے کہ حکومت انہیں ایسے اچھوتے خیال کے نتیجے میں
انعام دینے کی بجائے ان کے خلاف کاروائی کا سوچ رہی ہے۔سوشل میڈیا دنیا میں
عجیب انقلاب لایا ہے کہ اب کوئی چیز جیسی بھی ہو، معاشرے سے چھپی نہیں رہ
سکتی۔
سرکاری ملازمت کرتے ہوئے کم تنخواہ کے سبب لوگ اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کے
لئے بہت سے کام کرتے ہیں۔ کام کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن کان آپ کے
مرتبے کے مطابق اور صاف ستھرا ہونا چائیے۔مجھے اسی حوالے سے اپنا ایک واقعہ
یاد آیا۔میری ساری سروس لاہور کی ہے۔ ایک دفعہ مجھے سزا کے طور پر ایک
چھوٹے سے پہاڑی علاقے میں پرنسپل لگا دیا گیا۔ میں وہاں ایک دن جائن کرنے
گیا اور پھر چند دن بعد ریٹائر منٹ حاصل کرکے ملازمت سے فارغ ہونے گیا۔ میں
جب وہاں جائن کرنے گیاتو وہاں کے سٹاف سے گپ شپ ہو رہی تھی۔میں نے ان سے
پوچھا کہ اگر میں یہاں رہنے کا فیصلہ کروں تو رہائش کیسے اور کہاں کی جائے
اگر میں فیصلہ کروں کہ یہاں کچھ دن رہنا ہے۔جواب میں وہ کہنے لگے کہ ایک تو
یہاں ایک ہی ہوٹل ہے جس کا مالک ابھی آپ بتا رہے تھے، آپ کا واقف ہے۔ہوٹل
میں کھانے کا مسئلہ بھی نہیں ہو گا۔ ہیڈ کلرک میرے قریب آ کر کہنے لگا، ایک
اور شاندار حل بتاؤں۔ آج سے تین سال پہلے جو فلاں پرنسپل آئے تھے، وہ یہی
کرتے رہے ہیں۔ یہاں کے مکان بہت صاف ستھرے نہیں کہ جہاں شہر سے آ کر کوئی
رہ سکے۔ ہوٹل میں رہنا بھی مہنگا پڑے گا۔ تو وہ پرنسپل صاحب یہاں سے 35
کلومیٹر پر واقع نیچے شہر میں ایک صاف ستھرا کمرا لے کر رہتے تھے۔ صبح گاڑی
سٹارٹ کرتے یہاں پہنچ جاتے۔ یہاں کا موسم ٹھنڈا ہے اور اس علاقے میں سردیوں
کی سبزیاں بڑی وافر تعداد میں ہوتی ہیں جو نیچے گرمی میں کاشت کرنا ممکن
نہیں ہوتا تھا۔سردیوں کے پھل جو نیچے میدانی علاقے میں نہیں گرمیوں کے موسم
میں نہیں ہوتے مگر یہاں وافر ملتے ہیں۔پرنسپل صاحب دو گھنٹے کالج میں رہتے۔
اتنی دیر تمام عملہ ان کی گاڑی میں سبزیاں اور پھل بھرنے لگا ہوتا۔ ہم نے
یہاں کے کسانوں سے پہلے ہی بات کی ہوتی تھی۔ وہ سبزیاں اور پھل لے کر صبح
نو بجے یہاں موجود ہوتے۔ تھوڑی سی قیمت دے کر ہم وہ سبزیاں اور پھل خریدتے
اور گاڑی کی ڈگی، گاڑی کی پچھلی سیٹیں اور گاڑی کی اگلی سیٹ سبزیوں اور پھل
سے پوری طرح بھر دیتے۔ دو ڈھائی گھنٹے بعد پرنسپل صاحب کو اطلاع ملتی کہ
گاڑی تیار ہے ۔ وہ ہم سے پیسوں کا حساب کرکے گاڑی سٹارٹ کرتے اور واپس اپنے
گھر چلے جاتے۔ وہاں ان کے مقامی گاہک کھڑے ہوتے ۔ہاتھوں ہاتھ وہ سبزی چار
گنا سے زیادہ قیمت پر بک جاتی۔آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔میں ہنس دیاکہ مجھے
کاروبار کا شوق ضرور ہے مگر میں نے زندگی میں کبھی اس طرح کا ہلکا کاروبار
نہیں کیا جو سالوں تک لوگوں کی زبان پر مذاق کی صورت رہے اور جس سے میرے
منصب کے وقار پر کوئی حرف آئے۔سچ کہتے ہیں کہ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی
بھلا۔
حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں یہ فرق بڑا صاف نظر آتا ہے
کہ پرائیویٹ سیکٹر کے لوگ اپنی بلڈنگز کا بھر پوراستعمال کرتے ہیں۔
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بلڈنگزرات گئے تک کسی نہ کسی صورت میں استعمال
ہو رہی ہوتی ہیں۔ وہاں شام کی کلاسز بھی ہوتی ہیں۔وہ سرکاری استاد جو اپنے
اداروں میں صبح کی کلاسز بھی لیتے ہوئے اپنے ادارے میں تکلیف کا شکار ہوتے
ہیں۔ ان پرائیویٹ اداروں میں بڑی خوشی سے پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ
پرائیویٹ تعلیمی ادارے پڑھانے کے پیسے دیتے ہیں جب کہ سرکاری ادارے لگی
بندی رقم دیتے ہیں جس کا تعلق آپ کے عہدے سے ہوتا ہے، پڑھانے سے نہیں ۔
سینئر حضرات تو خصوصاًنہ پڑھانا اپنا حق جانتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ حکومت
نظام تعلیم میں کچھ ایسی مثبت تبدیلیاں کرے کہ جس سے ہمارے سینئر اساتذہ
بھی پڑھانے کی طرف مائل ہوں اور سرکاری عمارتیں جو ہم اٹھارہ گھنٹے کے لئے
جرائم پیشہ لوگوں کو استعمال کے لئے دے دیتے ہیں، ان سے کچھ مثبت نتیجہ لیا
جا سکے۔
تنویر صادق
|