عظمت کے مینار .......میاں محبوب علی مگوں

آج میں ایک ایسی عظیم شخصیت سے اپنے قارئین کو متعارف کرواتا ہوں ،جن کا نام میاں محبوب علی مگوں ہے ۔ان کا تعلق چنیوٹ کے مردم خیز خطے سے ہے ۔میری ان ملاقات حجاز ہسپتال کے بانی حاجی انعام الہی کے توسط سے ہوئی ۔دراصل میاں محبوب علی مگوں کے بیٹے کے گھر میں چنیوٹ کے بزنس مینوں کا ناشتے کا تھا ، مجھے بطور مہمان اس ناشتے میں مدعو کیا گیا تھا۔میں جب ڈی ایچ اے کی ایک وسیع و عریض بنگلے میں داخل ہو ئے تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کیا کوئی بنگلہ اتنا خوبصورت بھی ہو سکتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں وہ ایک جنت نما محل تھا جس میں ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے اور بنگلے کے اندر رنگ برنگے کھانوں کا اہتمام تھا،جس کا جو دل چاہے وہ اٹھاکر کھانا شروع کردے۔جب ناشتہ مکمل ہوگیا تو وہاں موجود تمام لوگ میاں محبوب اقبال مگوں کی کی کوٹھی کی جانب گاڑیوں پر روانہ ہوگئے جہاں چائے اور لسی کا اہتمام کیا گیا تھا بلکہ رنگ برنگے جھولے بھی وہاں نصب تھے۔مجھ سمیت کتنے ہی لوگ جھولے جھول کر انجوائے کرنے لگے ۔ اسی دوران لسی سے بھرے ہوئے گلاس ہمارے سامنے تھے ،سب نے حسب منشا لسی پی کر رب کا شکرادا کیا ۔اس لمحے میرے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان کا انٹرویو کروں ِ ۔پہلے تو وہ ہچکچائے لیکن میرے اصرار پر وہ مان گئے اور طے یہ پایا کہ یہ انٹرویو ان کے دفتر ہائیڈ پارک میں ہوگا ۔جب میں مقررہ تاریخ پر ا ن کے دفتر پہنچا تو انہوں نے انتہائی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔اس کا مطلب تھا کہ وہ بھی اپنے سینے میں چھپے ہوئے راز بتانے پر آمادہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ چنیوٹ کی مٹی میں یہ تاثیر شامل ہے کہ وہاں کے لوگ پیدائشی طور پر کاروباری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔دوسری خوبی یہ کہ ہم کاروبار کے لیے گھرکے نزدیک جگہ کا انتخاب نہیں کرتے ، بلکہ ہمارے نزدیک بہترین کاروباری ماحول ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا میرے دادا حالانکہ چنیوٹ کے رہنے والے تھے لیکن کاروبار کے لیے انہوں نے ہزاروں میل دور کلکتہ شہر کا انتخاب کیا۔پھر مہارجہ کی دعوت پر وہ نیپال چلے گئے لیکن ہر جگہ انہوں نے اپنی کاروباری دیانت کو ممکن بنائے رکھا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ سویڈن کا بزنس مین جو بہت عرصے سے ہم کھالوں کا کا روبار کرتا تھا ۔پاکستان اپنی آمد پر اس نے چنیوٹ شہر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔اس خواہش کی تکمیل کے لیے جب ہم اسے اپنے ساتھ لے کر چنیوٹ شہر پہنچے تو انہوں نے شہر کی روایات کے بارے میں کئی سوال کیے۔پھر ایک کچی زمین سے بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے مٹی اٹھاکر اپنے رومال میں رکھ لی۔ہمارے اس کا یہ فعل یقینا ہمارے لیے حیران کن تھا بلکہ سمجھ سے بالاتر تھے۔میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ مٹی میں اپنے ملک لے جاؤں گااور اپنی اولاد کو تحفے میں دے کر نصیحت کرے گا کہ کاروبار صرف چنیوٹ کے لوگوں سے کرنا ہے جن کے خمیر میں بلا کی دیانت اور بہترین کاروباری ساکھ موجود ہوتی ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ سویڈن کے اس بزنس میں کا یہ فقرہ چنیوٹ برادری کے لیے بہت بڑی سند رکھتا ہے۔محبوب اقبال مگوں نے مزید بتایا میں مشرقی پاکستان میں ہمارا کھالو ں کا بہت وسیع کاروبار تھا۔وہاں زیادہ تر لین دین مقامی بنگالیوں سے تھا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب مشرقی پاکستان میں بغاوت کے آثار نمایا ں نظر آنے لگے عوامی لیگ کے بنگالیوں نے ہر سطح پر پنجابیوں کی مخالفت شروع کردی ۔ڈھاکہ میں ایک شخص جس کا نام"فضلو " تھا، اس نے کاروبار کرنے والے بنگالیوں کا ایک اجلاس بلا یااور خوب زہر اگل کر عہد لیا کہ کوئی کوئی بنگالی ،پنجابیوں سے کاروبار نہیں کرے گا۔اجلاس میں موجود تمام لوگ خاموشی سے سنتے رہے جب وہ بات ختم کربیٹھا تو ایک بزرگ بنگالی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ فضلو میاں یہ درست ہے کہ پنجابیوں نے یہاں لیدر کے کاروبار پر قبضہ کررکھا ہے لیکن یہ بھی بتاؤ کہ انہوں نے کسی سے بددیانتی کی ہے کسی کا حق مارا ہے۔جو خوبیاں کاروباری اعتبار سے پنجابیوں میں نظر آتی ہیں وہ خوبیاں ہم میں سے کسی بنگالی میں نہیں۔ہمیں پنجابیوں سے کاروبار کرتے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں کیا کوئی ایک بھی پنجابی کسی بنگالی کے پیسے مار کر بھاگا ہے۔بزرگ کی باتیں سن کر پوری محفل پر سکتہ طاری ہوگیا اور پنجابیوں سے کاروبار نہ کرنے کا کا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا ۔میاں محبوب اقبال نے بتایا کہ قدرت نے چنیوٹ کے رہنے والوں میں نسل در نسل یہ خوبیاں ودیعت کررکھی ہیں۔وہ خود نقصان برداشت کرنے کے باوجود کسی اور نقصان نہیں پہنچانتے۔یقینا جانیں محبوب اقبال کی باتیں سن کر چنیوٹ برادری کی دیانت ، امانت اور معاملہ فہمی پر میرا ایمان مزید مضبوط ہوگیا ۔16دسمبر 1971ء کو ہم ہتھیار ڈالنے کی خبر پہنچی تو ہم نے بھی از خود مغربی پاکستان جانے کے لیے ریڈ کراس سے رابطہ کیا ۔انہوں نے ڈھاکہ میں مقیم بھارتی قیادت سے بات کرکے ہمیں ایک جگہ جمع ہونے کو کہا تاکہ ٹرین کے ذریعے بھارت کے راستے ہمیں مغربی پاکستان پہنچایا جائے۔ریڈ کراس کے ذریعے جب ہم ہماری ٹرین کانپور پہنچی تو تو میں نے اسٹیشن ہی سے اپنے عزیزوں کو کال کرکے بتا دیا تھا کہ ہم خیریت سے ہیں۔لیکن بیک وقت تین بیٹوں ،دو بہووں ور پوتے پوتیوں کی دشمن کی قید میں موجود گی ایک ایک لمحہ انہیں اذیت پہنچاتی رہی۔دووسر ی جاب مغربی پاکستان لانے والی ٹرین سات دن تک بھارت میں ہی گھومتی رہی پھر ہمیں یہ کہہ کر کہ پاکستانی حکومت آپ کو لینے سے انکاری ہے۔ہمیں میرٹھ کی چھاؤنی کی فوجی بارکوں کے اردگرد خاردارتاریں لگا کر قید کردیا گیا ۔اس کیمپ میں اڑھائی ہزار مرد ، عورتیں اور بچے موجود تھے ۔یہاں ہر قیدی کو فی کس پانچ روپے ماہوار ملتے تھے۔ہم ان پانچ روپوں میں سے دو روپے خرچ کرلیتے جبکہ بقیہ تین روپے سے کیمپ میں موجود بچوں کے لیے کتابیں ، ٹافیاں اور کھلونے خرید لیتے۔اس کیمپ میں جتنے بچے پڑھائی کے قابل تھے ،انہیں اکٹھا کرکے میری طرح کے کچھ اور لوگ بھی پڑھانے لگے ۔اس طرح فارغ وقت کا مصرف بھی نکل آیا اور بچوں کی پڑھائی بھی ہم نے متاثر ہونے سے بچا لی۔تختی ،سلیٹ اور کاپیاں مطلوبہ مقدار میں میسر نہ تھیں اس لیے بچوں کو سمجھانے کے لیے ہم کبھی دیوار پر لکھتے اور کبھی زمین سے تختی کا کام لیتے ہوئے انگلیوں سے اس پر لکھتے ۔کیمپ میں موجود ہر چھوٹا بڑا ننگی زمین پر ہی سوتا تھا ۔ایک مرتبہ میں نے ریڈ کراس والوں سے پوچھا کہ ہم تو نے آپ کو مغربی پاکستان لے جانے کے لیے کہاتھا اور آپ نے ہمیں اس کیمپ میں لاکر بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔یہ ناانصافی کیوں ؟میرے ا صرار پرریڈ کراس کے ذمہ دار افسر نے مجھے وہ دستاویزات دکھائیں اور کہا کہ مغربی پاکستان پہنچانے میں بھارتی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تھا آپ کی اپنی حکومت آپ لوگو ں کو لینے سے انکار کردیا تھا ۔بہر کیف بھارتی قید میں ضعیف العمر مردوں ،عورتوں اور ،معصوم بچوں کو پورے دو سال بھارتی قید میں زندہ درگوررکھنا بھی ایک بہت بڑا قومی جرم ہے۔جب حکومت پاکستان نے یہ اطمینان کرلیا کہ ہم بہاری نہیں پاکستانی ہیں ،اس وقت دو سال ہو چکے تھے۔جب ہم چنیوٹ پہنچے تو خونی رشتہ داروں بالخصوص ماں اور باپ کی طرف سے جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔تین بیٹوں ، بہوں اور ان کے بچوں کا غم والدکی صح پر بہت اثر انداز ہو اانہوں نے ایک آ ہ بھری اور خدا کا شکر ادا کیاکہ میں نے اپنی زندگی میں اپنے بچوں کی شکلیں دیکھ لیں۔محبوب اقبال مگوں نے کہا آپ جو دیکھ رہے ہیں یہ دوبارہ اسی محنت کا نتیجہ ہے جو ہم ماضی کے زخم بھول کر دوبارہ کاروبار شروع کیا لیکن ہماری زندگی کے وہ دو سال واپس لا دیں ،پیچھے کچھ نہیں بچے گا۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 806 Articles with 890649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.