سچّے موتیوں کی تلاش۔۔۔۔4#part

بسم الله الرحمن الرحيم

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي – وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي – وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۱۸﴾ سورة البقرة

بے شک وہ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کے راستے میں یہی لوگ ہیں جو امید رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور اللہ بہت بخشنے والا ہے نہایت رحم کرنے والا ہے۔

جہاد کی معاشرتی مثال

اب ذرا شروع سے دیکھتے ہیں ہم نے بات شروع کہاں سے کی تھی؟ آیت کی ابتداء کیا تھی؟
ذکر تھا ایمان والو ، ہجرت کرنے والو اور جہاد کرنے والوں کا ترجمہ سے ہمیں یہ تین صفات لگ رہی تھیں تین الگ الگ گروہ جن کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا تھا پر یہاں
خصوصیات کا ذکر نہیں تھا یہ تین پڑاؤں تھے وہ تین مرحلے جہاں سے ہر ایمان والو کو گزرنا ہے۔

"ہجرت کہتے ہیں اپنے نفس کو گناہ چھوڑنے پر آمادہ کرنے کو اور اسی نفس کو نیکی پر آمادہ کرنے کا نام جہاد ہے۔"

1: پہلے لوگ ایمان لاتے ہیں اللہ کی وحدانیت پر اور قبول کرتے ہیں دین اسلام کو اپنا دین۔۔۔
2: پھر انہیں ہجرت کرنی پڑتی ہے جسمیں انسان اللہ کے لیے اللہ کے منع کیے ہوئے کام چھو دیتا ہے ۔
3: اور پھر اس کے بعد اسے جہاد کرنا ہوتا ہے یعنی اللہ کے دین پر خود عمل کرنا ہوتا ہے ۔

اور پھر ہے کہ یہی لوگ ہیں جو امید رکھتے ہیں۔ الله کی رحمت کی " یہاں لفظ امید کا ذکر پتہ ہے کیوں ہے؟ کیونکہ جب انسان گناہ ترک کرنا شروع کرتا ہے نیکی کی طرف قدم بڑھانے لگتا ہے تو اس سفر میں بڑی کوتاہیاں ہو جاتی ہیں۔ اس سفر میں بڑی اونچ نیچ ہوتی ہے۔ بہت مقامات پر پھسل جاتا ہے ۔ کبھی سستی کبھی دیر کبھی لوگ تو کبھی اپنے اور کبھی حالات اور اس موقع پر شیطان بار بار نا امیدی اور مایوسی کا وار کرتا ہے۔ ہاں اس وقت ہم نے مایوس نہیں ہونا ڈٹے رہنا ہے کیونکہ یہی لوگ ہیں جو امید رکھتے ہیں اپنے اب کی رحمت کی ۔۔۔
اور اس کے بعدجن اسماء الحسنٰی کا ذکر ہے
وه الغفور الرحیم کا

غفور کے ہم نے کیا معنی پڑھے تھے (یہ معافی کے جواب میں آتا ہے یعنی ہم نے گناہ کیا اور پھر ہم نے توبہ کی اب اللہ نے ہمیں معاف کر دیا وہاں جو اسم اعظم آئے گا وہ غفور ہے۔
پرانے گناہ، گِلٹ ، پچھتاوه وہ جب ہم ایمان لے آتے ہیں ہیں ۔ نہ تو ہمیں بہت سی چیزوں کا سامنا ہوتا ہے۔ بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ سب سے بڑی تکلیف یہ ہوتی ہے کہ سیلف ڈاؤٹ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ انسان گناہ چھوڑ دیتا ہے مگر اسکے گناہ اور گناہ پر گواہ لوگ اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے ایسے میں انسان کو کسی ڈھارس
امید کے کسی سرے کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاکہ انسان اس گِلٹ اور پچھتاوے سے اپنی جان خلاصی کروا سکے ۔ ہم نے خود کو انسان ہونے کا مارجن دینا ہے اپنے لیے اتنے سخت نہ ہوں ہوسکتا ہے آپ خود کو معاف نہ کر سکیں ۔ پر یہ " نہ " سمجھيں کے اگر آپ خود کو معاف نہیں کر پا رہے تو اللہ تعالٰی بھی آپ کو معاف نہیں کریں گیں بلکہ یہاں آپ نے سچی توبہ کی اور وہاں آپکو اللہ نے معاف کر دیا ۔
بلکہ اسی آیت کے اگلے الفاظ سے آپکو میری بات واضح ہو جائے گی آیت میں لفظ " غفور " کے بعد اسم اعظم
" رحیم " آرہا ہے اور رحم کے ہم نے کیا معنی پڑھے تھے (رحم) وہ جگہ جہاں ہم سب نے نشونماپائی اس مقام پر صرف ہمارا خیال نہیں رکھا گیا ۔ بلکہ ایک خاص پروٹوکول کے ساتھ ہمیں رکھا گیا ۔ بناء مانگے سب کچھ دیا گیا ۔
صرف ہم نے ایمان لا کر ہجرت اور جہاد کرنا ہے۔ اسکے بعد ہم نے اپنے رب سے امید رکھنی ہے کہ وہ ہمارے پچھلے گناہ معاف کر دے۔ تو ناصرف وہ ہمارے پچھلے گناہ معاف کردیگا بلکہ ہماری موجودہ کوہتایوں سے درگزر کرے گا بلکہ وہ ہم پر رحیم ہو جائے گا ۔
دیکھیں یہ رحیم لفظ میں بہت کچھ پوشیدہ ہے " رحم یعنی وہ جگہ جہاں ہم سب سے اکیلے ہوتے ہیں۔
جب ہم اس دنیا میں آگئے تھے پر اپنی ماں کے پیٹ میں تھے نہ تو لوگ بھی تھے اردگرد روشنیاں بھی تھیں اور شور بھی تھا ۔
پر ہمارے رب نے پرده قائم کر دیا اور جو ایک دفعہ پردہ قائم کر سکتا ہے نہ تو وہ بار بار بھی قائم کرنے پر قادر ہے۔
یہاں بتایا جا رہا ہے کہ جب ہم نے ابتداء کرنی ہے نہ تو یہ بھری دنیا ہمارے لئے رحم کی مانند ہو جائے گی لوگ ہوتے ہوئے بھی نہیں دیکھیں گیں ہم تنہاء ہو جائیں گیں اردگرد سیاہی دکھےگی راستہ بھی نہیں سوجھے گا ہو سکتا ہے رزق کے ذرائع بھی بند ہو جائیں ۔
لیکن ان سب مخالفتوں کے بعد ان سب امتحان اور آزمائشوں کے ہوتے ہوے ہم نے پُر امید رہنا ہے ہم نے امید نہیں چھوڑنی راہِ حق پر ڈٹے رہنا ہے اپنے رب سے استقامت مانگنی ہے ۔
اگر ہم صراط المستقیم پر ہیں تو پھر ہم نے خوف نہیں کھانا اور یہ بات نہیں بھولنی کہ

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿۵۴﴾

اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر ہے ۔
3:54

میرے استاد ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں کہ راستہ نظر نہ آئے تب اللہ پر یقین ایمان ہے جیب میں پیسے ہو اور پھر دل کو اطمینان ہو تو وہ ایمان کس پر ہوا؟ پیسہ پر۔۔۔۔
اللہ پر نہیں ۔
اسی امید کے ساتھ کے اللّه ہم سب کا حامی و ناصر ہو
وَاخِرُ دَعْوَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعُلَمِينَ
 

Anam Misbah
About the Author: Anam Misbah Read More Articles by Anam Misbah: 12 Articles with 5527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.