کبھی گائے دودھ دیتی تھی، آج گولیاں دیتی ہے۔ کبھی گائے کا تقدس ماں کے
رتبے تک محدود تھا، آج وہ مسلمانوں پر موت کا پروانہ بن چکی ہے — کہیں
دادری میں اخلاق مارا جاتا ہے، کہیں فلسطین میں مسجد اقصیٰ کے گرد سرخ
گائیں گردش کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے: یہ تقدس کب زہر بن گیا؟ اور کیسے ہنود و
یہود نے اس "مقدس جانور" کو مسلمانوں کے خلاف اتحاد کی بنیاد بنا دیا؟
بھارت میں گائے کو "گاؤ ماتا" کہا جاتا ہے۔ رگ وید سے لے کر منوسمرتی تک
ہندو مت کی کتب گائے کو دھرتی کی ماں، رزق کی دیوی، اور امن کی علامت قرار
دیتی ہیں۔ مگر جب بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تو یہی گائے امن کی جگہ نفرت
کی علامت بن گئی۔ اخلاق احمد ہو، پہلو خان ہو، یا جنید — سب کے قاتل یہی
گائے کے رکھوالے تھے۔
کشمیر میں تو حد ہی ہو گئی: عید پر قربانی کرنے کی کوشش پر گھروں پر چھاپے،
مسجدوں کے سامنے گاؤ رکشکوں کی پہرہ داری، اور گوشت کھانے پر دہشت گردی کے
الزامات۔
اب آ جائیے فلسطین کی طرف۔ وہاں بھی ایک گائے کا ذکر ہو رہا ہے — سرخ گائے،
یعنی "Red Heifer"۔ یہ وہی گائے ہے جسے یہودی عقیدے میں پاکیزگی کی علامت
سمجھا جاتا ہے۔ کتابِ گنتی کے مطابق اس گائے کی راکھ سے طہارت حاصل کی جاتی
تھی۔
مگر بات یہیں نہیں رکی۔ صہیونی گروہوں نے اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ کے مقام
پر تیسرا ہیکل بنانے سے پہلے سرخ گائے کی قربانی ضروری ہے۔ چنانچہ امریکہ
سے پانچ سرخ گائیں منگوائی گئیں، اور انہیں اسرائیل لا کر خاص مقام پر رکھا
گیا۔
یہ ایک مذہبی حربہ نہیں، ایک سیاسی تلوار ہے — جس کا ہدف صرف مسجد اقصیٰ
نہیں، بلکہ پورا فلسطین ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل ان معاملات میں ایک دوسرے کے اتنے
قریب آ چکے ہیں کہ ان کا اتحاد صرف دفاعی نہیں، نظریاتی ہو چکا ہے۔ دونوں
ریاستوں کا ہدف مسلم اکثریتی علاقے — کشمیر اور فلسطین — اور دونوں نے اپنے
اپنے مقدس بیانیے — گائے اور ہیکل — کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ہتھیار
میں بدل دیا ہے۔
گزشتہ برس ایک کشمیری نوجوان نے کہا:
"بھارت کہتا ہے کہ یہ گائے مقدس ہے، ہم کہتے ہیں کہ ہماری جان بھی مقدس ہے،
مگر گائے بچ جاتی ہے اور ہم مر جاتے ہیں۔"
یہی آواز فلسطین کے ایک بچے کی زبانی بھی سنی جا سکتی ہے:
"یہ سرخ گائے جب بھی شہر میں آتی ہے، ہمیں لگتا ہے ہماری مسجد کی چھت ہٹائی
جائے گی۔"
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہندو قوم پرستی اور صہیونی تحریک دونوں نے اپنے
مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا؟ یا یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے؟
اگر ہم تاریخ پڑھیں، سیاست سمجھیں، اور آج کے عالمی اتحاد و معاہدات کا
تجزیہ کریں، تو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ گائے اب صرف جانور نہیں — یہ
ایک نظریاتی بارود ہے جس کے ایک سرے پر بھارت، دوسرے پر اسرائیل، اور
درمیان میں صرف مسلمان۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم "مقدس" اور "مسلح" کے فرق کو سمجھیں۔ گائے کو مذہب کا
تقدس تو مل سکتا ہے، مگکسی انسان کا خون بہانے کا جواز نہیں۔۔۔
کشمیر میں نہ فلسطین میں
|