قرآن یا تو کلام ہے یا کتاب ہے ؟
لکھی ہوئی چیز ہے یا بولی ہوئی چیز ہے انسان کے لکھنے میں اور انسان کے
بولنے میں زمین آسمان کا فرق ہے
بولنے میں زبان میں غلطی بھی سکتی ہے بات ریپیٹ بھی ہورہی ہوتی ہے دوسری
زبان کے لفظ بھی آجاتے ہیں انسان کی تقریر / کلام میں غلطی لازمی ہے یا پھر
وہ انسان خود کو کریکٹ بھی کرتا ہے
جیسے اگر کوئی تقریر کرنے اور اس کی ٹرانسکرپٹ نکلوائے تو اس میں گرامر
مسٹیکس بھی ہو گیں ریپیٹیشن بھی ہو گی اس طرح اسے کتابی شکل میں لانے کے
لئے ایڈٹ کرنا لازمی ہو گا قرآن پاک جب نازل ہوا تو رسولﷺ کے سامنے کوئی
لکھی ہوئی کتاب نہ تھی۔
القرآن
کُتِبِیْ وٙلٙاْ تٙتْلُہٙ
اور نہ آپ اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے ہیں قرآن میں خود یہ بات نازل ہو گئی کہ
آپ تو پڑھنے والے ہیں ہی نہیںاور اگر جو لوگ آپکو جھوٹا کہتے ہیں اور انھیں
کوئی شک ہو رہا ہے تو وہ بتادیں کہ آپ کہا سے پڑھ رہے ہیں لیکن قرآن تو
شروع سے ہی اپنے آپکو کتاب کہتا ہے۔ لیکن لوگوں کے سامنے تو کتاب نہ تھی
کتاب ہوتی بھی تو رسولﷺ کے ہاتھ میں ہوتی لیکن رسولﷺ کے ہاتھ میں کتاب کا
کیا فائدہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تو پڑھنا ہی نہیں آتا تھا۔
اس قرآن کو کتاب کیوں کہا گیا ہے؟
کلام بھی کہا گیا ہے حٙتّٙی یٙسْمٙعٙ کٙلٙامٙ اللہ قرآن کو قرآن بھی کہا
گیا ہے قرآن جو چیز اونچی آواز میں پڑھی جائے اور بار بار پڑھی جائے اسے
قرآن کہتے ہیں۔
لوگ جب اس بات کو سنتے تھے تو انھیں فوراٙٙ اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ یہ
محمدﷺ کا کلام نہیں ہے صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہ نہیں کہتے تھے۔
انھیں احساس ہوتا کہ یہ ایسے تو نہیں بولتے یہ کہا سے لے کر آتے ہیں یہ تو
کوئی اور ہی بات ہے کیونکہ اس کلام میں کوئی غلطی نہیں کوئی بریک نہیں ایک
فلو کے ساتھ چل رہا ہے یہ کوئی عام اسپیچ نہیں ہے یہ لکھا ہوا کلام ہے سوال
پیدا ہوتا ہے تو پھر یہ لکھا کس نے ہے۔؟
جب مسلمان مدینہ موؤ ہوئے ہجرت کی تو مدینے میں بڑی تعداد تھی یہود کی یہود
پڑھنے لکھنے والے لوگ تھے انہیں پڑھنا لکھنا اتا تھا اور انہیں یہ بھی پتہ
تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم' اُمِّیْ ' ہیں پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ان
کے نزدیک یہ معیوب بات تھی اُمِّیُون = اُمْ سے نکلا ہے اُمْ کہتے ہیں ماں
کو اُمِّی کے معنی اتنے انپڑھ کے جیسے کہ یہ ابھی ماں سے نکلا ہے اب وہ لوگ
یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ بات ایک طرح سے انسلٹ تھی اب
قران کی سب سے بڑی سورت سورة البقرہ وہ مدنی دور کی ہے یعنی رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے مدینہ موؤ ہونے کے بعد وہ سب سے پہلی سورت میں سے ہے اور اس
کی پہلی آیت کیا ہے الف لام میم یہ تو حرف ہے اور حرف سے کون سیکھتا ہے جو
پڑھنا سیکھتا ہو پر جس نے پڑھنا سیکھا نہ ہو اس کا حرف سے کیا تعلق بقرہ کی
پہلی آیات ہی ایک طرح سے یہود کے لیے شوک تھا۔
دوسری بات کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی کوئی کتاب نہیں ہے
جب میں کوئی بات کرتا ہوں منہ سے نکلتی ہے اور جب میں کوئی بات لکھتا ہوں
اس میں ایک اور فرق بھی ہے اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے جب میں کوئی بات
لکھتا ہوں نہ تو اس میں جو بھی غلطی ہو میں انہیں درست کر سکتا ہوں ، دوسری
بات لکھ سکتا ہوں ، لکھا ہوا مٹا سکتا ہوں ، الفاظ بڑھا سکتا ہوں ، الفاظ
گهٹا سکتا ہوں لیکن جب کوئی بات میں بول رہا ہوتا ہوں تو ایڈجسٹمنٹ کا کوئی
موقع نہیں جو بات ایک بار نکل گئی وہ نکل گئی اب وہ واپس نہیں لی جا سکتی
قران میں تو کوئی ایڈیٹوریل پروسس نہیں ہے اگر لکھا ہو تو ممکن ہے مٹا کر
کوئی اور چیز ڈال دے کوئی ایڈجسٹمنٹ کر دے قران پورا کا پورا بولا گیا ہے
قران لوح محفوظ کے اندر ہے پر جو دیا گیا وہ کلام دیا گیا زبان میں دیا گیا
اور زبان میں جو بات نکل جائے وہ واپس نہیں لی جا سکتی عرب کو اپنی زبان پر
بہت ناز تھا اور انہیں شوق تھا کہ وہ دوسروں کے کلام میں نقص نکالیں.جاری
ہے...
استاد نعمان علی خان کے لیکچر سے ماخوذ
|