ارشادِ ربانی ہے اے رسولؐ:’’ آپ جس حال میں بھی ہوں اور
قرآن میں سے جو کچھ بھی پڑھ کر سنائیں اور (اے لوگو) تم بھی جو کوئی کام
کرتے ہو ہم ضرور تم پر ناظر ہوتے ہیں‘‘۔نبی کریم ﷺ اور امت مسلمہ کا اللہ
تبارک و تعالیٰ ہرحال میں نگہبان تاکہ ان کے ہر عمل کی قدر دانی کی جائے۔
بندۂ مومن کویہ لطیف احساس ساری دنیا اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات و
ردعمل سے بے نیاز کردیتا ہے۔وہ موافق و مخالف نتائج کی پروا کیے بغیر شرح
صدر اور یکسوئی کے ساتھ اپنا فرض منصبی ادا کرتاچلا جاتاہے کیونکہ اس کے
پیش نظر خالق کائنات کی یہ یقین دہانی ہوتی ہے :’’تم جب اس (کام) میں مشغول
و منہمک ہوتے ہو تو ہم نگراں ہوتے ہیں۔ اور آپ کے پروردگار سے زمین و
آسمان کی کوئی ذرہ بھر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے‘‘ ۔اللہ تبارک و تعالیٰ کی
خوشنودی کے لیے کیے جانے والے اعمالِ صالحہ کی بابت فرمانِ خداوندی ہے :’’
اور کوئی چیز خواہ ذرہ سے چھوٹی ہو یا اس سے بڑی مگر یہ کہ وہ ایک واضح
کتاب میں موجود ہے‘‘۔ بروزِ قیامت اہل ایمان کے حق میں ان کے نامۂ اعمال
گواہ بن جائیں گے۔
اس ہفتے ہمارا نہایت سرگرم اورجواں سال ہنس مکھ ساتھی جمشید اعظمی اچانک
ہمیں داغِ مفارقت دے گیا۔اس پر اب بھی یقین نہیں آتا کہ وہ ہم میں نہیں ہے
مگر یہ اللہ کا فیصلہ تھا ۔ مجھے یقین ہے اس کے نیک اعمال اسے جنت الفردوس
میں اعلیٰ مقام پر فائز کریں گے۔ ایسے مخلص مجاہدین ِ اسلام کے متعلق آگے
یہ نوید سنائی گئی ہے کہ :’’آگاہ ہو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لئے نہ
کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘ اور ان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ
:’’یہ (اللہ کے دوست) وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا‘‘۔
ایسے لوگوں کو رب کائنات کی طرف سے خوشخبری سنائی گئی ہے کہ : ’’ ان کے لئے
دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے کلمات میں کوئی
تبدیلی نہیں ہو سکتی یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ اس دنیا کی آزمائش میں جن
لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے دوستی و رفاقت کا شرف حاصل ہوجائے تو اس
سے بڑی کوئی اور سعادت نہیں ہے۔ مولانا محمد علی جوہرؔ فرماتے ہیں ؎
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے
نبیٔ کریم ﷺ اور ان کے متبعین کو دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی بشارت
دینے کے فوراً بعد ارشادِ قرآنی ہے: ’’ ان (کافروں) کی (معاندانہ) باتیں
آپ کو غمزدہ نہ کریں‘‘۔ یعنی دنیا کی اس آزمائش میں اسلام کے دشمنوں کی
جانب سے دلآزاری اور جان و مال کا نقصان تو ہوتا رہے گا لیکن اہل ایمان کے
اطمینان کا سامان یہ عقیدہ ہے کہ :’’ یقیناً تمام کی تمام عزت اللہ کے لئے
ہے (وہ جسے چاہے عزت و ذلت دے) وہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے‘‘۔
سوویت یونین کے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے پر مغرب کو ایک دشمن کی تلاش تھی اور
وہ اس نے اسلام و مسلمانوں میں ڈھونڈ لی کیونکہ حربی نہ سہی نظری سطح پر تو
وہی اس کا حریف تھا ۔ اس کے بعد مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر پروپگنڈا
کی ایک عالمی مہم چھیڑ کر دشمنانِ اسلام اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ اسے
نیست و نابود کرنے کے لیے یہی حربہ کافی ہے۔
عالمی سطح پر یہ نفرت انگیزی بڑھتی رہی یہاں تک کہ 2019 میں نیوزی لینڈ کے
شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملے میں 51؍ افرادشہید ہو گئے اور پوری دنیا کے
لیے اس کا انکار مشکل ہوگیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ میں مسلمانوں سے نفرت
کی روک تھام کے لیےعالمی اسلاموفوبیا مخالف دن منانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔۵؍
سالوں تک محنت کرنے کے باوجود پچھلے سال اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل
انتونیو گوتیرش نےاعتراف کیا کہ باعثِ تقسیم بیانیے اور دروغ گوئی سے لوگوں
کو بدنام کیا جا رہا ہے اس لیے سبھی کو عدم رواداری، دقیانوسی تصورات اور
تعصب کےخلاف متحد ہونا پڑے گا۔انہوں نےکہا کہ نفرت پر مبنی آن لائن اظہار
سے تشدد کو ہوا مل رہی ہےنیز تصدیق کی مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی
واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ۔ وطن عزیز بھی اس معاملے میں کسی سے
پیچھے نہیں ہے تو ایسے میں توقع تھی کہ مسلمان اپنے دین سے بیزار ہوجاتے
اور غیر مسلم اس دور چلے جاتے مگر اس کا الٹا ہوگیا ۔’ مسلماں کو مسلماں کر
دیا طوفانِ مغرب نے‘ کی عملی تعبیر ظاہر ہونے لگی۔
اسلام دشمنی کے باوجود نہ صرف مسلمان اپنے دین سے چمٹ گئے بلکہ غیر مسلمین
کے دل بھی دین حنیف کے لیے کھلنے لگے۔ دشمنان اسلام کو یہی چیز ناگوار
گزرتی ہے اور وہ اسی سے ڈر کردوسروں کو ڈراتے ہیں ۔ امریکہ کی معروف غیر
سرکاری تنظیم پیو(PEW) ریسرچ سینٹر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسلام سب سے
تیزی سے پھیلنے والا دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا ہے۔ 2010ء سے2020ء کے
درمیان مسلم آبادی میں 21؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے کیونکہ مسلمانوں کی آ
بادی 170؍ کروڑ سے بڑھ کر 200کروڑہو گئی۔ عالمی اوسط سے یہ بڑھوتری ڈھائی
گنازیادہ ہےکیونکہ غیر مسلموں کی آبادی میں صرف 7.9؍فیصد کا اضافہ دیکھنے
کو ملا ۔ ہندوستان ہندو راشٹر بن رہا ہے پھر بھی ہندوؤں کی آبادی 15؍
فیصد سے گھٹ کر 14.9؍ فیصد پر آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ’ہم پانچ
اور ہمارے پچیس ‘ کا طعنہ دینے والے زہریلے ہندو رہنما اپنے لوگوں کو زیادہ
بچے پیدا کرنے ترغیب دیتے نظر آتے ہیں اور ان میں برہماچریہ(تجرد) پر عامل
آر ایس ایس بھی شامل ہے۔ شمالی امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک میں اسلامو
فوبیا 600 گنا بڑھامگر اس کے باوجود امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی 52؍
فیصد بڑھ کر 59؍ لاکھ تک پہنچ گئی۔ مسلم آبادی کا سب سے زیادہ 34؍ فیصد
اضافہ افریقہ درج کیا گیا۔ یہ اس فرمانِ ربانی کی مصداق ہے کہ :’’ دل شکستہ
نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ مولانا محمد علی
جوہرؔ تو فرماتے ہیں؎
انعام کا عقبیٰ کے تو کیا پوچھنا لیکن
دنیا میں بھی ایماں کا صلا میرے لیے ہے
|