آج صبح جبکہ ہمارے ہاں فجر کا وقت تھا تو معلوم ہوا کہ
ایئر انڈیا کا ایک مسافر بردار طیارہ احمد آباد ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے کے
چند ہی لمحوں بعد آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ پھر ہم نے اس کی سی سی ٹی
وی کیمرے میں محفوظ ہو جانے والی ایک مختصر سی وڈیو دیکھی ۔ طیارہ ٹیک آف
کرنے کے بعد مزید بلند نہیں ہوا بلکہ تھوڑی دور تک سیدھا اڑنے کے بعد عموداً
گر گیا اور آگ بھڑک اٹھی دھوئیں کے بادل چھا گئے ۔ بے اختیار پانچ برس پہلے
فلائٹ PK 8303 کی یاد تازہ ہو گئی تب بھی ہماری طرف فجر ہی کا وقت تھا اور
جمعتہ الوداع کی سحری ابھی بند ہی کی تھی کہ حادثے کی اطلاع ملی ۔ اس کی
بھی ایک نجی کیمرے میں ریکارڈ ہو جانے والی وڈیو میں کچھ ایسا ہی منظر تھا
جہاز اتنی نیچی پرواز پر تھا کہ ایک رہائشی عمارت پر بنی ہوئی پانی کی
ٹینکی سے ٹکرایا اور آبادی پر گر گیا ۔ بس فرق یہ تھا کہ یہ جہاز لینڈنگ
گیئر نہ کھلنے کے باعث ٹچ ڈاؤن کرنے کے بعد لفٹ آف کر گیا تھا ۔ انجن رن وے
پر رگڑ کھا کر ناکارہ ہو چکے تھے اور ایئر انڈیا کے طیارے نے ٹیک آف کرنے
کے بعد ابھی اس کے وہیل پوری طرح سے بند بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ گر گیا ۔
فلائٹ PK 8303 اپنے مسافروں کو لے کر منزل پر آ رہی تھی اور فلائٹ AI 171
اپنے مسافروں کو اُن کی منزل تک پہنچانے کے لئے روانہ ہوئی تھی مگر وہ سب
اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے ۔ PK 8303 عید الفطر سے دو روز پہلے اپنے
دامن میں اُن لوگوں کو سمیٹے ہوئی تھی جو عید منانے کراچی آ رہے تھے ۔ AI
171 کی آغوش میں کتنے ہی ایسے مسلم مسافر بھی سمائے ہوئے تھے جو عید الاضحیٰ
منا کر اب واپس برطانیہ جا رہے تھے مگر سبھی خوش باش مطمئین و مسرور
مسافروں کی روحیں اپنے سب خوابوں امیدوں امنگوں حوصلوں اور آرزوؤں سمیت
آسمانوں کو پرواز کر گئیں ۔ اور ہمیشہ کی طرح بیشمار سوال اپنے پیچھے چھوڑ
گئیں جن کے جواب کبھی نہیں ملتے ۔ جیسے کہ PK 8303 جیسا سانحہ وقت کی دھول
میں گم ہو گیا آج تک پتہ نہیں چلا کہ آخر ہوا کیا تھا؟ جہاز کے لینڈنگ گیئر
کیوں نہیں کُھلے اُن کی جانچ اور دیکھ بھال کس کی ذمہ داری تھی کس کس کو
کٹہرے میں کھڑا کیا گیا؟ بیگناہوں کا خون رائیگاں ہی جاتا ہے اُس کی کوئی
قدر ہے نہ قیمت ۔
دونوں ہی حادثوں میں اعداد و شمار کا ایک عجیب اشتراک نظر آتا ہے ۔ علم
الاعداد سے دلچسپی اور شغف کی بناء پر ہم نے نوٹ کیا کہ پاکستانی طیارے کے
حادثے کی تاریخ یعنی بائیس مئی کے اعداد کا مجموعہ و مفرد 9 بنتا ہے یعنی
2+2+5 ۔ یہ ہندسہ اپنے اندر بہت ہی اہمیت اور ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور
انسانی زندگی اور معاملات و مسائل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ بھارتی طیارے
AI 171 کے اعداد کا مجموعہ تو 9 ہے ہی مگر حادثے کی تاریخ یعنی بارہ جون کے
اعداد کا مجموعہ و مفرد بھی 9 ہی بنتا ہے یعنی 2+1+6 ۔ جہاز میں سوار
مسافروں اور عملے کی مجموعی تعداد 242 تھی خبروں کے مطابق ایک خاتون مسافر
ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکی اور یہی اس کی
خوش قسمتی تھی اس کی زندگی بچ گئی مگر یہاں بھی مسافروں کی فہرست میں اس کا
نام موجود ہونے سے یہ حساب بنتا ہے 9=3+4+2 ۔ اگر یہ سب اتفاق ہے تو بہت
عجیب اتفاق ہے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے ۔ بہرحال بہت ہی اندوہناک
حادثہ ہے انتہائی معجزانہ طور پر ایک مسافر بچ گیا ہے کراچی والے حادثے میں
دو مسافر موت سے محفوظ رہے تھے ۔ انسانی جان کا نقصان ایک بہت بڑا نقصان
ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور عام طور پر ایسے حادثات و
سانحات کا شکار ہونے والے بد نصیب لوگ عام سے بےضرر و بھلے لوگ ہوتے ہیں
کسی لینے میں نہ دینے میں ، زندگی و معاش کی تگ و دو اور دوڑ دھوپ میں
مصروف ۔ حالیہ حادثے میں بھارتی طیارہ ایک ڈاکٹرز ہاسٹل کی بلڈنگ پر گرا جس
کی وجہ سے وہاں بھی کئی جانوں کا اتلاف ہوا جو یقیناً بہت افسوسناک ہے ۔ جو
فیملی فوٹوز وائرل ہیں وہ بہت سوچنے پر مجبور کر دینے والی ہیں ۔ یہ حادثات
و سانحات اپنے اندر ایک سبق بھی لیے ہوئے ہوتے ہیں زندگی کی بے ثباتی کا
اچانک ہی گھات لگانے والی موت کا ۔ پل بھر میں سب ختم ہو جاتا ہے لاکھ کی
محنت لمحوں میں راکھ ہو جاتی ہے مگر ہم کچھ نہیں سیکھتے ۔
✍🏻 رعنا تبسم پاشا
آج صبح جبکہ ہمارے ہاں فجر کا وقت تھا تو معلوم ہوا کہ ایئر انڈیا کا ایک
مسافر بردار طیارہ احمد آباد ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے کے چند ہی لمحوں بعد
آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ پھر ہم نے اس کی سی سی ٹی وی کیمرے میں محفوظ
ہو جانے والی ایک مختصر سی وڈیو دیکھی ۔ طیارہ ٹیک آف کرنے کے بعد مزید
بلند نہیں ہوا بلکہ تھوڑی دور تک سیدھا اڑنے کے بعد عموداً گر گیا اور آگ
بھڑک اٹھی دھوئیں کے بادل چھا گئے ۔ بے اختیار پانچ برس پہلے فلائٹ PK 8303
کی یاد تازہ ہو گئی تب بھی ہماری طرف فجر ہی کا وقت تھا اور جمعتہ الوداع
کی سحری ابھی بند ہی کی تھی کہ حادثے کی اطلاع ملی ۔ اس کی بھی ایک نجی
کیمرے میں ریکارڈ ہو جانے والی وڈیو میں کچھ ایسا ہی منظر تھا جہاز اتنی
نیچی پرواز پر تھا کہ ایک رہائشی عمارت پر بنی ہوئی پانی کی ٹینکی سے
ٹکرایا اور آبادی پر گر گیا ۔ بس فرق یہ تھا کہ یہ جہاز لینڈنگ گیئر نہ
کھلنے کے باعث ٹچ ڈاؤن کرنے کے بعد لفٹ آف کر گیا تھا ۔ انجن رن وے پر رگڑ
کھا کر ناکارہ ہو چکے تھے اور ایئر انڈیا کے طیارے نے ٹیک آف کرنے کے بعد
ابھی اس کے وہیل پوری طرح سے بند بھی نہیں ہوئے تھے کہ وہ گر گیا ۔
فلائٹ PK 8303 اپنے مسافروں کو لے کر منزل پر آ رہی تھی اور فلائٹ AI 171
اپنے مسافروں کو اُن کی منزل تک پہنچانے کے لئے روانہ ہوئی تھی مگر وہ سب
اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو گئے ۔ PK 8303 عید الفطر سے دو روز پہلے اپنے
دامن میں اُن لوگوں کو سمیٹے ہوئی تھی جو عید منانے کراچی آ رہے تھے ۔ AI
171 کی آغوش میں کتنے ہی ایسے مسلم مسافر بھی سمائے ہوئے تھے جو عید الاضحیٰ
منا کر اب واپس برطانیہ جا رہے تھے مگر سبھی خوش باش مطمئین و مسرور
مسافروں کی روحیں اپنے سب خوابوں امیدوں امنگوں حوصلوں اور آرزوؤں سمیت
آسمانوں کو پرواز کر گئیں ۔ اور ہمیشہ کی طرح بیشمار سوال اپنے پیچھے چھوڑ
گئیں جن کے جواب کبھی نہیں ملتے ۔ جیسے کہ PK 8303 جیسا سانحہ وقت کی دھول
میں گم ہو گیا آج تک پتہ نہیں چلا کہ آخر ہوا کیا تھا؟ جہاز کے لینڈنگ گیئر
کیوں نہیں کُھلے اُن کی جانچ اور دیکھ بھال کس کی ذمہ داری تھی کس کس کو
کٹہرے میں کھڑا کیا گیا؟ بیگناہوں کا خون رائیگاں ہی جاتا ہے اُس کی کوئی
قدر ہے نہ قیمت ۔
دونوں ہی حادثوں میں اعداد و شمار کا ایک عجیب اشتراک نظر آتا ہے ۔ علم
الاعداد سے دلچسپی اور شغف کی بناء پر ہم نے نوٹ کیا کہ پاکستانی طیارے کے
حادثے کی تاریخ یعنی بائیس مئی کے اعداد کا مجموعہ و مفرد 9 بنتا ہے یعنی
2+2+5 ۔ یہ ہندسہ اپنے اندر بہت ہی اہمیت اور ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور
انسانی زندگی اور معاملات و مسائل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ بھارتی طیارے
AI 171 کے اعداد کا مجموعہ تو 9 ہے ہی مگر حادثے کی تاریخ یعنی بارہ جون کے
اعداد کا مجموعہ و مفرد بھی 9 ہی بنتا ہے یعنی 2+1+6 ۔ جہاز میں سوار
مسافروں اور عملے کی مجموعی تعداد 242 تھی خبروں کے مطابق ایک خاتون مسافر
ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت ایئرپورٹ نہیں پہنچ سکی اور یہی اس کی
خوش قسمتی تھی اس کی زندگی بچ گئی مگر یہاں بھی مسافروں کی فہرست میں اس کا
نام موجود ہونے سے یہ حساب بنتا ہے 9=3+4+2 ۔ اگر یہ سب اتفاق ہے تو بہت
عجیب اتفاق ہے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے ۔ بہرحال بہت ہی اندوہناک
حادثہ ہے انتہائی معجزانہ طور پر ایک مسافر بچ گیا ہے کراچی والے حادثے میں
دو مسافر موت سے محفوظ رہے تھے ۔ انسانی جان کا نقصان ایک بہت بڑا نقصان
ہوتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور عام طور پر ایسے حادثات و
سانحات کا شکار ہونے والے بد نصیب لوگ عام سے بےضرر و بھلے لوگ ہوتے ہیں
کسی لینے میں نہ دینے میں ، زندگی و معاش کی تگ و دو اور دوڑ دھوپ میں
مصروف ۔ حالیہ حادثے میں بھارتی طیارہ ایک ڈاکٹرز ہاسٹل کی بلڈنگ پر گرا جس
کی وجہ سے وہاں بھی کئی جانوں کا اتلاف ہوا جو یقیناً بہت افسوسناک ہے ۔ جو
فیملی فوٹوز وائرل ہیں وہ بہت سوچنے پر مجبور کر دینے والی ہیں ۔ یہ حادثات
و سانحات اپنے اندر ایک سبق بھی لیے ہوئے ہوتے ہیں زندگی کی بے ثباتی کا
اچانک ہی گھات لگانے والی موت کا ۔ پل بھر میں سب ختم ہو جاتا ہے لاکھ کی
محنت لمحوں میں راکھ ہو جاتی ہے مگر ہم کچھ نہیں سیکھتے ۔
|