زندگی کے دوڑ میں ہم اتنے آگے نکل آئیں ہیں کہ ماضی اب
دھندلی یاد بن کر رہ گئ ہیں۔ صرف چند نقش قدم باقی رہ گئے ہیں اور انہی نقش
قدم پر واپس چلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
لیکن ایک انجانی قوت میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے آگے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ میں
واپس جانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن کوئ مجھے آگے لے کر جارہا ہے۔
سمندر کی لہریں بھی آگے کی طرف جاکر واپس پلٹ کر آجاتی ہیں اور اپنی
گہرائیوں میں گم ہو کر مزید شدد کے ساتھ واپس پلٹ کر آتی ہیں۔
لیکن زندگی میں واپس جانے کا کوئ راستہ نہیں معلوم جو شائد قدرت کا ایک
نظام ہے کہ ہم جتنا آگے کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں اتنا ہی عالم برزغ کے قریب
ہوتے جا رہے ہیں۔
کچھ تو اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں اور ان کی
یادیں وہ نقش قدم ہیں جو ہمیں واپس ماضی کی طرف لے جاتے ہیں۔
زندگی کے اس سفر میں ایسا کیوں لگتا ہے ہے کہ ہم اب اکیلے ہوتے جا رہے ہیں
جبکہ رشتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہم تنہائی محسوس کر رہے ہیں۔
شائد یہ وہ احساس ہے جس سمجھنا بہت مشکل ہے اور یہ زندگی کا سفر ہے۔
|