میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج کا موضوع ہمارے آج کے معاشرے میں نظر آنے والی ایک اہم بات کی طرف اشارہ
ہے جس کا آپ کو یہ مضمون پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوجائے گا دراصل ہم میں سے
کئی لوگ جب نماز کی پابندی اور اللہ تعالی کی دوسری عبادات میں اپنے آپ کو
مصروف کرلیتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو انتہائی نیک نمازی پرہیزگار اور متقی
سمجھنے لگتے ہیں اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد انہیں نیک لوگوں کی صف میں
کھڑا کردیتے ہیں لیکن ہم اس رب تعالی کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے جو بھی
نیک کام کرتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں قبولیت کا درجہ رکھتے بھی ہیں یا نہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ بروز محشر
ہماری وہ ساری عبادتیں ہمارے منہ پر مار دی جائیں گی کسی ایسی غلطی یا گناہ
کے سبب جس کا ہمیں علم ہی نہ ہو۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایسی باتیں اور ایسے معاملات کا اثر اللہ
تعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندوں کو زیادہ ہوتا ہے انہیں زیادہ محسوس ہوتا
ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کیونکہ ایسے لوگ اپنے رب تعالیٰ کو اپنے بہت قریب
پاتے ہیں اور انہیں اگر یہ محسوس ہو جائے تو وہ توبہ واستغفار میں لگ جاتے
ہیں ایک بزرگ شخص ایک دوکان پر کچھ سودا لینے کی غرض سے گئے اور جب انہوں
نے دوکاندار کو پیسے دیئے تو دوکاندار نے کہا کہ بابا جی یہ پیسے تو کھوٹے
ہیں یہ سن کر بابا جی پہلے تو پریشان ہوئے اور پھر رونے لگے انہیں روتا
دیکھ کر دوکاندار نے کہا کہ باباجی آپ روئے نہیں میں آپ کو سودا ویسے ہی دے
دیتا ہوں لیکن وہ بابا جی زاروقطار رونے لگے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لوگ اکٹھے ہوگئے لیکن باباجی کا رونا بند
نہیں ہورہا تھا جب وہ تھوڑا سنبھلے تو کہنے لگے کہ میں اس لئے نہیں رو رہا
کہ مجھے سودا نہیں ملے گا بلکہ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے پاس جو
پیسے تھے انہیں میں اب تک سچے سمجھ رہا تھا لیکن دوکاندار چونکہ جانتا تھا
اسے کھوٹے اور سچے پیسوں کی پرکھ ہے اس لئے اس نے مجھے بتایا کہ یہ پیسے
کھوٹے ہیں تو ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اور دن
رات دعائیں بھی مانگتے رہتے ہیں اور اپنی عبادتوں کو کھرا سمجھتے ہیں لیکن
اگر بروز محشر رب تعالی نے ہماری ساری عبادتیں ہمارے منہ پر ماردی تو کیا
ہوگا کیونکہ اس رب کو پرکھ ہے وہ جانتا ہے کہ ہماری عبادت سچی ہے یا کھوٹی
تو پھر کیا ہوگا ہمارا کیا بنے گا یہاں تو تم مجھے سودا دے دو گے لیکن وہاں
پھر اچھے اعمال کہاں سے لائوں گا اس لئے دوکاندار کی بات سن کر مجھے آخرت
کی یاد آگئی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں واقعی یہ بات حقیقت ہے کہ ہم اپنے حساب سے
رب تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور ہمارے اعتبار سے وہ عبادتیں کھری ہوتی ہیں
لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ کہیں ہماری عبادتیں کھوٹے
سکوں کی طرح ضائع نہ ہو جائیں پیران پیر دستگیر حضور غوث پاک رضی اللہ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس سال اپنے رب کی عبادت کی پھر میرے
رب نے فرمایا کہ " اے عبدالقادر مانگ کیا مانگتا ہے " مطلب یہ ہے کہ ہمیں
اپنی عبادتوں کا سلسلہ موقوف نہیں کرنا چاہیے دعائوں کا سلسلہ بند نہیں
کرنا۔ چاہئے یہ سوچ کر کہ ہم دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ قبول ہی
نہیں کرتا یہ خیالات شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں وہ چاہتا ہے کہ ہم رک جائیں
اور اللہ کی عبادت سے دور ہو جائیں لیکن ہم اپنی کوشش اور محنت سے اپنے
کھوٹے سکوں کو کھرے سکوں میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سیکھنے اور سمجھنے کی نہ تو کوئی عمر ہوتی
ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی تجربہ درکار ہوتا ہے جب اسلام کی تاریخ کا
مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کئی معمولی سے خدام اور غلام
اپنے مالکوں اور آقائوں کے سامنے ایسی باتیں کردیتے ہیں کہ ملک اور آقا کے
لئے بھی وہ ایک سیکھ ہوتی ہے اور ایسے واقعات ہمیں بیشمار ملتے ہیں ہماری
نظروں سے گزرتے ہیں لوگ تو لوگ کسی بےجان درخت ، کسی پرندے کسی جانور یا
کسی بے زبان چیز سے بھی ہمارے بزرگوں کے سیکھنے کے واقعات ہمیں بیشمار ملتے
ہیں جن سے ہمیں اپنے اعمال کے کھوٹے یا سچے ہونے کا بخوبی پتہ چلتا ہے اس
لئے کسی کے بھی علم سے فائدہ اٹھانے اور کچھ حاصل کرنے میں ہمیں جھجکنا
نہیں چاہئے بلکہ سیکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں اپنے کھوٹے یا
سچے اعمال کا پتہ لگے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے
ایک دفعہ بصرہ سے ایک غلام خریدا وہ غلام ایک ولی صفت انسان تھا صاحب نسبت
اور تہجد گزار بھی تھا جب اسے گھر لایا گیا تو خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ
علیہ نے اس سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ تو اس نے عرض کیا کہ حضور
غلاموں کا کوئی نام نہیں ہوتا مالک اسے جس نام سے بھی پکارنا چاہے پکار
سکتا ہے پھر اس سے پوچھا یہ بتائو کہ تمہیں کیسا لباس پسند ہے ؟ تو اس غلام
نے عرض کیا کہ حضور غلاموں کا اپنا کوئی لباس نہی ہوتا مالک جو چاہے وہ
پہنا دے پھر پوچھا کہ اچھا یہ بتائو کہ تمہیں کھانے میں کیا پسند ہے ؟ تو
غلام نے عرض کیا کہ حضور غلاموں کی کوئی پسند نہیں ہوتی مالک جو کھلادے بس
وہی اس کا کھانا ہوتا ہے یہ جذبات سن کر خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے
زار سے چیخ ماری اور بیہوش ہوگئے اور جب کچھ دیر بعد ہوش آیا تو فرمایا کہ
اے غلام میں نے تمہیں پیسوں سے خریدا تھا لیکن میں تمہیں بنا پیسوں کے آزاد
کرتا ہوں تو غلام نے عرض کیا کہ مجھے آخر آپ کس نعمت کے بدلے آزاد کررہے
ہیں ؟ تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تم نے مجھے اللہ تعالیٰ کی بندگی
کرنا سکھادی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں یہ سیکھ ملتی ہے کہ جب
اللہ نے ہمیں دنیا میں بھیجا تو وہ ہمارا مالک ہے اور ہم اس کے غلام وہ
ہمیں جس نام سے پکارے جس طرح کا لباس ہمیں پہنانا چاہے جو کھلانا چاہے ہمیں
اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی ہر نعمت پر اپنا سر تسلیم خم کرنا چاہیے
کیونکہ ہم غلام ہیں خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو اس غلام کی باتوں سے
معلوم ہوا کہ وہ اپنے رب کی اپنے مالک کی بندگی میں اتنا مظبوط ہے کہ اس کا
ہر عمل کھرا عمل ہے اور آپ علیہ الرحمہ کو اپنا ہر عمل اس کے عمل کے مقابلہ
میں کھوٹے سکوں کی مانند لگنے لگا اس لئے آپ علیہ الرحمہ بیہوش ہوگئے اور
ہوش آتے ہی اس کو اس لئے آزاد کیا کہ آپ علیہ الرحمہ اس کی بندگی کے عمل
میں رکاوٹ بننا نہیں چاہتے تھے اور اللہ کے مقرب اور محبوب ولی ہونے کے
باوجود جن کے ہر عمل کو اللہ رب العزت نے پسند کرکے قبول کرکے انہیں یہ
مقام بخشا تھا انہوں نے بھی اس غلام کے بندگی کے اس عمل کو اپنے اعمال کے
مقابلہ میں اعلی پایا اور یہ ہوتی ہے اللہ کے خاص لوگوں کی شان و عظمت کہ
اتنا بڑا مقام و مرتبہ پانے کے باوجود اپنی عاجزی وانکساری سے ایک ادنی
غلام کے سامنے اپنے آپ کو حقیر سمجھنا اپنے اعمال کو کسی کے اعمال کے سامنے
کھوٹے اعمال تصور کرنا اعمال میں کمزوری دیکھنا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں نیک ، اچھے اور کھرے اعمال سے مزین زندگی
ہمارے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان
کی زندگیاں اور اولیاء کرام اور بزرگان دین کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں اگر
ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرکے ان پر ہم بھی عمل کرنا شروع کردیں تو کھوٹے
سکوں کی مانند ہمارے اعمال بھی کھرے سکوں کی مانند سچے ہو جائیں گے بس ہمیں
اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنا ہوگی اگر ہم کوئی نیک عمل کرتے ہیں تو پہلے
ہمیں خود یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ کام ہم نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے
کیا ہے ؟ اپنے آپ کو نیک و پرہیزگار کہلوانے کے لئے کیا ہے ؟ یہ دنیا کے
دکھاوے کی خاطر کرکے اللہ تعالیٰ سے اس کے اجر اور انعام کی امید پر کیا ہے
؟ کیا ہم نے کوئی نیک عمل واقعی کھرے عمل کی طرح کیا ہے یا کھوٹے سکوں کی
طرح منہ پر ماردینے والا عمل کیا ہے جیسے ایک
ابو یعلیٰ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ”عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد
کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا
دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے۔
( ابن ماجہ 496/4 حدیث 4260)
مطلب یہ کہ انسان کوئی عمل کرکے اپنا محاسبہ کرے جبکہ احمق یعنی بیوقوف وہ
ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ تعالی سے انعام آخرت کی
امید رکھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث سے یہ ہی بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں
اپنے ہر عمل کو آخرت کی تیاری کے لئے کرنا ہوں گے جو کھرے اعمال ہوں کھوٹے
سکوں کی طرح ناکارا نہ ہوں تاکہ بروز محشر ہمارے اعمال ہمارے کام آئیں اور
منہ پر نہ مارے جائیں کیونکہ ہمارا کوئی بھی کھرا عمل ہمیں جنت تک پہنچانے
کے لئے کافی ہوگا جبکہ کھوٹے سکوں کی مانند ایک بھی عمل ہمیں جہنم میں
دھکیلنے کے لئے کافی ہوگا اپنے نیک اعمال پر فخر نہ کریں کہ یہ ہماری زمہ
داری ہے اور اسی کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے ہمارے نیک اعمال بروز محشر
ہمارے کھرے اعمال ہوں گے اور اگر ہم نے اپنے نیک اعمال پر تکبر کیا غرور
کیا تو یہ بروز محشر کھوٹے سکوں میں تبدیل ہوکر ہمارے کسی کام نہ آئیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اعمال کے کھوٹے سکوں کی مانند ہونے کا ایک
مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے نیک اعمال کو دوسروں کے مقابلہ میں کمزور سمجھیں
جیسے میں نے کہا کہ یہ معاملہ ہمارے اولیاء کرام اور بزرگان دین کی زندگیوں
کے مطالعہ سے ہمیں اکثر وبیشتر ملتا ہے وہ بزرگان دین جنہوں نے اللہ کا قرب
حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت و مشقت کی اور پھر کہیں جاکر انہیں اللہ تعالیٰ
کا قرب حاصل ہوا لیکن ان کے زندگی میں بھی کہیں کہیں ایسے لوگوں سے سامنا
اور واسطہ پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ جہاں انہیں اپنے اعمال میں کمزوریاں
نظر آتی ہیں ان کے مقابل۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت مولانا رومی علیہ الرحمہ ایک دن خرید
و فروخت کی غرض سے بازار تشریف لے گئے اور ایک دوکان پر جب پہنچے تو دیکھا
کہ ایک عورت کھڑی کچھ سودا خرید رہی تھی پھر جب اس عورت نے سودا خرید کر جب
رقم دینا چاہی تو دوکاندار بولا کہ ارے " عشق میں کیسے پیسے کیسا لین دین
جائو اور سامان لے جائو " اصل میں یہ دونوں عاشق و معشوق تھے ان کی بات سن
کر مولانا رومی علیہ الرحمہ یکدم غش کھاکر گر پڑے دوکاندار گھبرا گیا جبکہ
وہ عورت وہاں سے جاچکی تھی تھوڑی دیر بعد جب مولانا رومی علیہ الرحمہ کو
ہوش آیا تو دوکاندار نے پوچھا حضور آپ علیہ الرحمہ کیوں بیہوش ہوگئے تھے تو
فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ تم اس عورت سے عشق کرتے ہو اور تمہارا عشق اتنا
مظبوط ہے کہ تمہارے درمیان حساب کتاب کوئی نہیں جبکہ میں اللہ تعالیٰ کا
عاشق ہوں لیکن میرا عشق اتنا کمزور ہے کہ میں تو اس کی تسبیح بھی گن گن کر
کرتا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسے کہتے ہیں کھرے عمل مولانا رومی علیہ
الرحمہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں " مثنوی روم" جیسی معروف تخلیق کے
خالق اور صوفی بزرگ جن کا ایک ایک لفظ ایک ایک جملہ اپنے اندر بڑی گہرائی
لئے ہوئے ہے اللہ کے ایک مقرب اور محبوب بندوں کی صف میں شامل ہیں لیکن
انہیں بھی اس دوکاندار کے عشق میں وہ گہرائی نظر آئی کہ انہیں اپنے رب سے
عشق میں کمزوری نظر آگئی یعنی دوکاندار کے کھرے عمل کے مقابلے میں اپنا عمل
کھوٹے سکوں کی مانند محسوس ہوا یہ ہے ہمارے بزرگان دین کی عاجزی وانکساری
کی بیمثال نشانی جو صرف ان ہی کا خاصہ ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ویسے حکم تو یہ ہے کہ نیک کام کرو تو اس
طرح کہ دائیں ہاتھ سے کرو تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو اور بائیں ہاتھ سے
کرو تو دائیں کو علم نہ ہو مطلب یہ کہ اپنے نیک عمل کا علم یا تو آپ کو ہو
یا آپ کے رب کو کسی تیسری کو بتانا دکھاوے میں آجاتا ہے اور حقیقت میں
دیکھا جائے تو ایسے ہی عمل کھرے عمل کہلاتے ہیں اور وہ کھوٹے سکوں کی طرح
نہیں ہوتے کیونکہ ہم کوئی بھی اچھا عمل کرتے ہیں تو وہ اللہ کی رضا کی خاطر
ہونا چاہئے اور ہمارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہمارے اس عمل سے ہمارا رب واقف
ہو بس پھر ہمارے یہ اعمال کھرے اعمال ہوں گے کھرے اعمال کی ایک خوبصورت
مثال کو سمجھنے کے لئے یہ واقعہ پڑھئے ایک سوسائٹی میں ایک مالدار شخص نے
گھر لیا اور وہاں رہائش اختیار کی کچھ دنوں بعد لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ
شخص اس محلے کا سب سے زیادہ مالدار انسان ہے لیکن کبھی اس کو کسی کی مدد
کرتے ہوئے یا کسی کا بھلا کرتے ہوئے نہیں دیکھا بس اپنی دنیا میں مست اور
مصروف ہی دیکھا کچھ دنوں کے بعد وہاں پر موجود دوکانداروں نے ایک عجیب
اعلان کردیا کہ ہم غریبوں کی مدد کریں گے حالانکہ وہ دوکاندار مالدار نہیں
تھے لیکن پھر بھی انہوں نے یہ اعلان کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک قصائی تھا جو اکثر غریبوں کو مفت اور
اعلی قسم کا گوشت دےدیا کرتا تھا ایک راشن والا جو ہر مہینہ کچھ لوگوں کو
باقاعدہ گھروں پر راشن پہنچایا کرتا تھا اور وہ بھی بنا پیسوں کے یعنی مفت
اسی طرح ایک دودھ والا وہ غریب گھر جہاں چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے وہاں مفت میں
دودھ پہنچایا کرتا وہاں رہنے والے لوگ اس امیر آدمی کے بارے میں اکثر یہ
باتیں کرتے ہوئے نظر آتے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا نوازا ہوا ہے لیکن یہ
غریبوں کی مدد تک نہیں کرتا جبکہ دوکاندار سارا دن محنت کرکے اپنے بیوی
بچوں کے لئے کچھ پیسے جمع کرتے ہیں اور اس میں غریبوں کا بھی خیال رکھتے
ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وقت یوں ہی اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا
اور لوگوں نے اس امیر آدمی سے جیسے تعلق تک ختم کردیا اور تو اور ایک دن
یوں ہی اس مالدار شخص کا انتقال ہوگیا لیکن سوسائیٹی سے کوئی بھی اس کے
جنازہ میں شرکت کے لئے نہیں گیااس مالدار شخص کے انتقال کے اگلے ہی دن
دوکانداروں نے غریبوں کی مدد کرنا بند کردی دوکانداروں کا اچانک بدلتا ہوا
یہ رویہ لوگوں کے لئیے حیران کن تھا لیکن جب پوچھا تو معلوم ہوا کہ جن جن
لوگوں کو مفت سامان ملتا تھا اس کی قیمت دوکاندار خود یعنی اپنی جیب سے
نہیں دیتے تھے بلکہ وہ امیر شخص چپکے سے دوکانداروں کو بھجوادیا کرتا تھا
مگر اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہوتے ہیں کھرے اعمال جو کرنے والا کرتے
کرتے دنیا سے رخصت ہوگیا لیکن اس کے ان نیک اعمال کا لوگوں کو علم تک نہ
ہوا اسی لئے کہتے ہیں کہ کسی کی ظاہری حالت دیکھ کر اس کے بارے میں اپنے
ذہن میں غلط قیاس آرائیاں نہیں کرنی چاہیئے کیا معلوم کس کا باطن کتنا پاک
و صاف ہو جو اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں مقرب و محبوب ہو اور کس کے اعمال
کھرے ہوں یہ صرف رب تعالیٰ کو علم ہے ہمیں ایسے واقعات سے یہ ہی سیکھنا
چاہیے کہ زندگی میں کوئی بھی اچھا نیک عمل کریں تو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا
کے لئے کریں دنیاوی لوگ تو برا کرنے برا بھلا بھی کہتے ہیں اور معاف بھی
نہیں کرتے اور اچھا کرنے پر تعریفوں کے پل باندھ لیتے ہیں جبکہ رب تعالی
برا کر نے پر اگر ہم توبہ کرتے ہیں تو معاف بھی کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور
الرحیم ہے بخشنے والا ہے بیشک ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے اس عارضی دنیا میں جتنی
زندگی دی ہے ہمیں صرف اس کے احکامات پر گزارنی چاہیے اس کے حبیب کریمﷺ کی
احادیث مبارکہ پر عمل کرکے گزارنی چاہیے اور صرف نیک اعمال میں اپنے آپ کو
مصروف رکھنا چاہئے نیک یعنی کھرے اعمال تاکہ بروز محشر ہمیں اپنے اعمالوں
کی بدولت شرمندگی نہ اٹھانی پڑے اور ہمارے اعمال کھوٹے سکوں کی مانند ہمارے
منہ پر نہ مار دیا جائے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں صرف اپنے
راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ
وآلیہ وسلم کی احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے مجھے سچ لکھنے
ہم سب کو پڑھ کر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین
بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|