فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
ریاستِ سوات میں اگر کسی شخصیت نے مشروبات کے شعبے میں بانی کا درجہ حاصل
کیا، تو وہ حاجی اکبر جان المعروف نگار حاجی صاحب تھے۔ سادہ طبیعت، محنتی
مزاج اور اپنے کام میں ماہر اس شخصیت نے اُس وقت نگار سوڈا واٹر کے نام سے
ایک ایسا کاروبار شروع کیا، جسے سوات میں ’’ٹھنڈی بوتلوں کی بانی فرم‘‘ کہا
جاتا ہے۔
یہ دکان 1935ء تا 1937ء کے دوران ریاستی دور میں مین بازار مینگورہ میں
قائم کی گئی۔ اُس وقت جب دنیا میں ’’پیپسی‘‘ اور ’’کوکاکولا‘‘ جیسے برانڈز
کی بازگشت سوات کی وادیوں تک نہیں پہنچی تھی، نگار حاجی صاحب اپنے ہاتھوں
سے مشروبات تیار کرتے، جنہیں مخصوص مشینوں کی مدد سے بوتلوں میں بھرا جاتا۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ بوتلوں کا منہ بند کرنے کے لیے کسی ڈھکن کی بجائے کانچ
کی گولی (کنچہ) استعمال میں آتی، جسے پشتو میں ’بلوری‘ یا ’ٹکان‘ کہتے ہیں۔
جب بوتل میں گیس بھری جاتی، تو وہ گولی خود بخود اوپر آ جاتی اور بندش کا
کام دیتی۔ کھولنے کا عمل بھی ایک مشقِ شوق ہوتا: بائیں انگوٹھے سے گولی کو
دبایا جاتا اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے ایک تھپڑ مارا جاتا، جس سے گولی
اندر جا گرتی اور بوتل کھل جاتی۔
نگار حاجی صاحب کے بیٹے شوکت نگار اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ اُن کے والد کا
مشروب اُس وقت ریاست کے والی میانگل عبدالودود المعروف باچا صاحب تک بھی
پہنچتا تھا۔ "باچا صاحب کے لیے بوتلیں ایک خاص لکڑی کے کریٹ میں بھیجی
جاتیں، جس میں بارہ خانوں میں بارہ بوتلیں رکھی جا سکتی تھیں، اور ہر خانے
میں سپرنگ لگا ہوتا تاکہ بوتل کو جھٹکے میں ٹوٹنے سے بچایا جا سکے۔"
شوکت نگار کے مطابق، "باچا صاحب کو ’میٹھا لیمن‘ بے حد پسند تھا، اور وہ
ماہِ رمضان میں روزہ اسی مشروب سے افطار کیا کرتے تھے۔ عام دنوں میں وہ
’ڈکار والی بوتل‘ یعنی گیس والی سوڈا سے لطف اندوز ہوتے۔"
نگار سوڈا واٹر کی شہرت اور پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے
کہ 1940 کی دہائی میں مینگورہ میں لگنے والی تباہ کن آگ کے بعد، اس دکان کو
شہر کے مرکزی مقام گرین چوک (نیو روڈ) پر گرین اڈہ کے قریب دوبارہ آباد کیا
گیا، اور وہاں بھی اسی لگن اور معیار کے ساتھ یہ کاروبار جاری رہا۔
ایک دلچسپ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اُس دور میں جب مقامی وسائل محدود تھے،
تو مشروبات کے اجزائے ترکیبی کہاں سے آتے تھے؟ اس کا جواب بھی شوکت نگار نے
دیا:
’’میرے دادا، حاجی بنجاری، تقسیمِ ہند سے پہلے بمبئی سے ایسنس، فلیورز اور
سوڈا کے کیمیکلز لایا کرتے تھے۔ ان میں مالٹا، لیمن اور سوڈا کے ذائقے شامل
تھے۔ یہاں تک کہ دودھ والی ٹھنڈی بوتلیں بھی ہم خود بناتے تھے، جو بہت
مقبول تھیں۔‘‘
شوکت نگار، جو آج کل مینگورہ بازار میں ہینڈی کرافٹس کا کاروبار کرتے ہیں،
اس خاندانی ورثے پر فخر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1990ء تک نگار سوڈا واٹر
کا سوات میں خاصا بول بالا تھا، اور پھر رفتہ رفتہ بڑے برانڈز کی آمد اور
روایتی کاروبار کے زوال نے اس تاریخی مشروب کو ماضی کا حصہ بنا دیا۔
حاجی اکبر جان المعروف نگار حاجی صاحب کی اولاد میں چھ بیٹے، مختیار نگار،
نعمت نگار، شوکت نگار، ماجد نگار، سجاد نگار اور شمشیر نگار شامل ہیں ان کے
علاوہ اولاد میں پانچ بیٹیاں بھی شامل ہیں۔
نگار سوڈا واٹر اب موجود نہیں، مگر اس کے ذائقے، آواز اور خاندانی یادیں آج
بھی پرانی نسل کے ذوق اور تاریخ کا حصہ ہیں۔
|