عبدالستار ایدھی — ایک انسانیت کے سفیر کی داستان

یہ کالم عبدالستار ایدھی کی انوکھی داستان، ان کے سماجی خدمات کے جذبے، اور معاشرے پر گہرے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ ان کے کارناموں جیسے ایدھی فاؤنڈیشن کا قیام، لاکھوں بے گھر لوگوں کی پرورش، اور انسانیت کی بے مثال خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے سادگی بھرے طرز زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ مضمون ان کے جذبہ ایثار، استقامت، اور عملی رہنمائی پر روشنی ڈالتا ہے۔ عملی سبق جیسے سادگی اپنانا، بلاامتیاز خدمت، اور چھوٹے اقدامات کا بڑا اثر قارئین کو سماجی تبدیلی کا حصہ بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ پاکستانی عوام کے لیے ایک متاثر کن اور رحمدلی کا پیغام پیش کرتا ہے۔


عبدالستار ایدھی وہ روشن چراغ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انسانیت کے سفیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اردو محاورہ "نیکی کر دریا میں ڈال" ایدھی صاحب کے فلسفہ حیات کی عکاسی کرتا ہے، جو بلا کسی امید کے خدمت کو زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔ یہ مضمون ایدھی کے سفر، ان کی قربانیوں، اور سماجی انقلاب کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ساتھ ہی، ہم ان کے اصولوں سے سیکھے گئے عملی سبق پر بھی بات کریں گے تاکہ قاری اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے بڑی تبدیلی لا سکے۔


ایدھی نے 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد کراچی میں ایک چھوٹی سی دکان سے اپنی سماجی خدمات کا آغاز کیا۔ 1951ء میں انہوں نے اپنی پہلی ایمبولینس خرید کر *ایدھی فاؤنڈیشن* کی بنیاد رکھی، جو آج دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس ہے۔ ان کا وژن صاف تھا: "ہر انسان کی مدد کرنا، چاہے اس کا مذہب، ذات، یا رنگ کچھ بھی ہو۔" انہوںے نے یتیم بچوں، معذور افراد، اور بے سہارا بوڑھوں کے لیے پناہ گاہیں قائم کیں۔ یہ سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ "ایک چنگاری سے بھی شعلہ بھڑک سکتا ہے" ۔ آپ بھی اپنی کمیونٹی میں چھوٹے قدم اٹھا کر شروع کر سکتے ہیں، جیسے محلے کے غریب بچوں کو پڑھانا یا ضرورت مندوں کو کھانا فراہم کرنا۔

ایدھی کا قیادتی فلسفہ ان کی سادگی اور بے لوثی پر مبنی تھا۔ وہ خود ایک کپڑے کا جوڑا اور سینڈل پہنتے، لیکن لاکھوں لوگوں کو شاندار سہولیات فراہم کیں۔ ان کی قیادت میں ایدھی فاؤنڈیشن نے سیلاب، زلزلے، اور وبائی امراض کے وقت لاکھوں زندگیاں بچائیں۔ ان کا کہنا تھا: "اگر تمہارے پاس دو روٹیاں ہیں، تو ایک کسی ضرورت مند کو دے دو۔" انہوں نے ثابت کیا کہ قیادت کے لیے دولت یا عہدہ نہیں، بلکہ جذبہ درکار ہوتا ہے۔ آپ اس سے سیکھ کر اپنی زندگی میں لالچ کو کم کر کے دوسروں کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔

ایدھی کو بھی تنقید اور مشکوک نظروں کا سامنا رہا۔ کچھ لوگ ان پر غیرملکی فنڈنگ کا الزام لگاتے، تو کچھ ان کے بے ساختہ طریقہ کار کو ناپسند کرتے۔ مگر انہوں نے کبھی اپنا مشن نہیں چھوڑا۔ 2016ء میں ان کی وفات کے وقت تک، ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس *1,800 ایمبولینسز اور *3,000* سے زائد مراکز تھے۔ ان کی استقامت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ "سچے ارادوں کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی"۔ جب آپ کو سماجی دباؤ محسوس ہو، تو اپنے مقصد پر نظر رکھیں — ایک دن دنیا آپ کے جذبے کو ضرور تسلیم کرے گی۔

عبدالستار ایدھی کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ انسانیت کی خدمت کوئی مشکل کام نہیں، بلکہ ایک چھوٹی سی عادت ہے۔ ان کا سادہ لباس، خاکسارانہ رویہ، اور بے پناہ ہمدردی ہر پاکستانی کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے اردگرد مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اردو محاورہ *"چھوٹے چھوٹے نالوں سے دریا بنتا ہے"* پر عمل کرتے ہوئے آج سے ہی کسی ایک شخص کی مدد کرنا شروع کریں۔ یاد رکھیں، ایدھی کوئی سپر ہیرو نہیں تھے — وہ صرف ایک انسان تھے جنہوں نے انسانیت کو سب کچھ سمجھا۔

"خدمت خلق ہی عبادت ہے"
 

Deedar Ali Mastoi
About the Author: Deedar Ali Mastoi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.