امت مسلماں کا نڈر کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای ایران اور کفر کی جنگ

یہ کالم ایران اور کے متعلق ہے جسمیں ایران نے اپنے حالیہ بیان میں دشمن کے جوہری تنصیبات پر حملے کو ناکام قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ نہ صرف بروقت تمام حساس مواد کو محفوظ کر چکا تھا، بلکہ دشمن کی سازشوں سے پہلے ہی باخبر تھا۔ یہ جنگ ایران کے لیے غیر متوقع نہیں بلکہ متوقع تھی، اور وہ مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں ہے۔ یہ صرف دفاع نہیں، ایمان، نظریے اور خودداری کی جنگ ہے — جس میں ہر وار حساب سے اور ہر ضرب یقین سے کی جاتی ہے۔

یقین، بصیرت، اور مزاحمت کا امتزاج جب کسی قوم کے بیانیے میں ڈھلتا ہے، تو وہ صرف ایک ردعمل نہیں ہوتا — وہ اعلانِ عزم ہوتا ہے۔ ایران کی جانب سے حالیہ دیے گئے بیان میں یہی ولولہ، یہی روح کارفرما ہے۔ ایک ایسی قوم جس نے چالیس برس سے زائد طویل سیاسی تنہائی، معاشی پابندیاں، سائبر جنگیں، عسکری دھمکیاں اور علاقائی محاصرے کے باوجود نہ صرف اپنی خودمختاری کو محفوظ رکھا بلکہ اپنے نظریے اور اصولوں پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، آج ایک بار پھر دنیا کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے۔

یہ بیان محض سفارتی زبان یا عسکری پیغام نہیں، بلکہ یہ ایک نظریاتی قوم کی گواہی ہے جو وقت کے فرعونوں کو للکار رہی ہے کہ ہم جانتے ہیں تم کیا چاہتے ہو، لیکن تم نہیں جانتے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔

ایران کے حکام کی طرف سے یہ کہنا کہ "ہم مارچ ہی میں دشمن کی سازشوں کو بھانپ چکے تھے" اور "ہم نے اسٹریٹیجک مواد کو بروقت محفوظ کر لیا تھا" اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قوم کی قیادت محض ردِ عمل پر انحصار نہیں کرتی، بلکہ پیش بینی، ذہانت اور دور اندیشی سے فیصلے کرتی ہے۔ جوہری پروگرام، جسے دشمن مسلسل نشانہ بناتا رہا ہے، ایران کے لیے نہ صرف سائنسی خودکفالت کی علامت ہے بلکہ ایک نظریاتی خود مختاری کا نشان بھی ہے۔ اور جب دشمن نے سمجھا کہ وہ کامیاب ہو چکا ہے، ایران نے اسے جتا دیا کہ تم صرف دھوئیں پر وار کر رہے ہو، ہمارا جوہر اب بھی ہماری تحویل میں ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جب کوئی قوم اپنے دشمن کو بتاتی ہے کہ تمہارے حملے سے ہمارا جسم شاید زخمی ہو، لیکن ہماری روح سلامت ہے — اور وہی روح تمہیں شکست دے گی۔
ایران کا یہ کہنا کہ "یہ جنگ ہمارے لیے اچانک نہیں، متوقع تھی" کسی معمولی جملے کا اعادہ نہیں بلکہ دشمن کی برسوں پر محیط محنت کو صفر پر لا کھڑا کرنے کا ایک تہذیبی جواب ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے جس نے کربلا میں اپنی شہادت سے تاریخ کے رخ کو موڑا۔ آج اسی تہذیب کی کوکھ سے صدائے ایمان بلند ہو رہی ہے کہ ہم نے اپنی تلواریں پہلے ہی تیز کر رکھی تھیں — اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو نیام سے نکالا جائے۔

جب کوئی قوم اعلان کرتی ہے کہ "یہ انقلاب کی زمین ہے… یہاں ہر ضرب حساب کے ساتھ، اور ہر وار ایمان کے ساتھ ہوتا ہے" تو وہ دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمارا مزاحمتی عمل کوئی وقتی غصہ یا سیاسی ردعمل نہیں، بلکہ ایک نظریاتی فرض ہے۔ جس طرح ایران نے 1979 کے بعد مسلسل دباؤ، اندرونی شورشوں اور بیرونی حملوں کے باوجود اپنے اصولوں سے انحراف نہیں کیا، وہی روایت آج ایک نئے باب کے طور پر ابھر رہی ہے۔

میرے الفاظ اس بات کا آئینہ دار ہیں کہ ایران اپنے جوہری اثاثوں کو فقط عسکری طاقت کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی قومی خودی کا حصہ مانتا ہے۔ اور یہی وہ زاویہ ہے جو مغربی طاقتوں کو خوفزدہ کرتا ہے۔ کیونکہ مغرب کے لیے ایٹمی طاقت کا مطلب ہے برتری، اور ایران کے لیے اس کا مطلب ہے برابری۔ وہ برابری جو کسی سامراجی طاقت کو گوارا نہیں۔
ایران کے بیان کا سب سے پراثر پہلو اس کا ایمانی لہجہ ہے۔ جب کوئی ملک اپنے عسکری دفاع کو "ضرب حساب" اور "وار ایمان" کہتا ہے، تو وہ محض طاقت کا مظاہرہ نہیں کر رہا بلکہ روحانیت سے لبریز ایک نظریے کی گونج پیش کر رہا ہے۔ یہی ایمان ہی تو ہے جس نے 1980 سے 1988 تک کے عراق-ایران جنگ میں ایک اقتصادی طور پر کمزور لیکن نظریاتی طور پر مضبوط قوم کو آٹھ برس تک دنیا کی جدید عسکری طاقتوں کے خلاف مزاحمت پر مجبور کیا۔

ایران جانتا ہے کہ دشمن صرف اس کی تنصیبات پر وار نہیں کر رہا، وہ اس کے نظریے، اس کی خود مختاری اور اس کے قومی وقار کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لیکن جب دشمن سمجھتا ہے کہ وہ کامیاب ہو چکا ہے، اور اسی لمحے ایران یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم تو تمہاری چال کو مہینوں پہلے سمجھ چکے تھے، تو یہ صرف سفارتی برتری نہیں بلکہ ذہنی برتری کی بھی دلیل ہے۔
ایرانی بیانیہ صرف جنگی پیغام نہیں دیتا بلکہ ایک نفسیاتی جنگ بھی لڑتا ہے۔ دشمن کو یقین تھا کہ وہ ایران کے حساس مراکز کو نقصان پہنچا چکا، اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ایران تو پہلے ہی چالاکی سے تمام اسٹریٹیجک مواد محفوظ کر چکا تھا، تو یہ شکست فقط عسکری نہیں، اعصابی بھی تھی۔ جنگ میں اکثر وہی قوم فاتح بنتی ہے جو پہلے دشمن کے ذہن پر قبضہ کر لیتی ہے، اور ایران یہ قبضہ بڑی خاموشی سے کر چکا ہے۔

یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ ایران کا یہ بیانیہ محض اندرون ملک عوام کے لیے تسلی یا جذبہ پیدا کرنے کا حربہ نہیں بلکہ بین الاقوامی پیغام بھی ہے کہ وہ اب کسی قیمت پر نہ جھکے گا، نہ رکے گا۔ دنیا میں شاید کوئی اور ملک ہوتا تو ایسی صورت میں فوری طور پر اقوام متحدہ، عالمی برادری یا کسی سفارتی مدد کی تلاش میں ہوتا، لیکن ایران کہتا ہے کہ "ہم تیار تھے، ہم تیار ہیں — اور ہم دشمن کو وہ جواب دیں گے جو تاریخ یاد رکھے گی!"

یہ وہ الفاظ ہیں جو آنے والے وقت میں سیاسی تجزیوں، عسکری مقالوں اور بین الاقوامی تعلقات کے مطالعے میں ایک ماڈل کے طور پر شامل کیے جائیں گے۔ ایران نے محض اپنے اثاثے بچا کر یا دشمن کی چال کو سمجھ کر کامیابی حاصل نہیں کی، بلکہ اس نے ایک مثال قائم کی ہے کہ کسی قوم کی اصل طاقت اس کا اسلحہ نہیں بلکہ اس کا ایمان، پیش بینی اور مزاحمتی شعور ہوتا ہے۔

جب ایران کہتا ہے کہ "یہ انقلاب کی زمین ہے... یہاں ہر ضرب حساب کے ساتھ، اور ہر وار ایمان کے ساتھ ہوتا ہے!" تو یہ اعلانِ فتح نہیں بلکہ اعلانِ بقا ہے — وہ بقا جو ہر تہذیب، ہر قوم اور ہر امت کا بنیادی حق ہے۔ دشمن اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ سائبر حملوں، ایئر اسٹرائکس یا پروپیگنڈا وار سے کسی قوم کے ارادے بدل سکتا ہے، تو ایران نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اصل قوت نہ میزائل میں ہے نہ میڈیا میں، بلکہ اس یقین میں ہے جو رات کے اندھیروں میں دعاؤں کے ساتھ جاگتا ہے اور دن کے اجالوں میں شمشیروں کے ساتھ چمکتا ہے۔
ایرانی قوم نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے نظریے پر قائم ہے بلکہ اپنی سرزمین اور خودداری کے تحفظ کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ تاریخ نے بارہا یہ سیکھا ہے کہ جب کوئی قوم ایمان، عقل، اور مزاحمت کے ساتھ اپنے دشمن کا سامنا کرتی ہے، تو وہ صرف ایک جنگ نہیں جیتتی — وہ اپنے وقت کی روح کو بدل دیتی ہے۔

اور شاید یہی وقت ہے جب دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ ایرانی تلواریں محض دھات کی نہیں، نظریے کی ہوتی ہیں۔ اور جب وہ نیام سے نکلتی ہیں، تو صرف جسم نہیں، باطل نظریے بھی کاٹتی ہیں۔

 

Rashid Javed
About the Author: Rashid Javed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.