بھٹو ازم کے حقیقی وارثان

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں23 اکتوبر کا دن چار اپریل1979 اور27 دسمبر2007 کی طرح بدقسمت اور دلگداز دن کی حثیت سے یاد رکھا جائیگا کیونکہ اس روز پاکستانی قوم اور ppp ایک تاریخ ساز ہستی سے محروم ہوگئی۔ سابق خاتون اول نصرت بھٹو دبئی میں طویل علالت کے بعد موت کے قبرستان میں درگور ہوگئیں۔ نصرت بھٹو نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے کٹھن اور جاں گسل جدوجہد کی جو تاقیامت تابناک الفاظ میں داد تحسین پاتی رہے گی۔ نصرت بھٹو کی عمر82 سال تھی۔بی بی سی نے نصرت بھٹو کی موت پر خصوصی رپورٹ میں انکی کاوشوں جہد مسلسل اور عزم صمیم کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ اعلٰی پائے کے سیاسی گھرانوں میں شائد ہی کوئی عورت ایسی ہو جس نے اپنے شوہر اور تین بچوں کے لاشے تھامے ہوں۔ نصرت بھٹو23 مارچ1929 کو ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئیں۔8 ستمبر 1951 میں وہ قائد عوام بھٹو کی زوجہ بنیں۔ وہ 1973سے 1977 تک پاکستان کی خاتون اول رہیں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ پی پی پی کی چیر پرسن منتخب ہوئیں۔ وہ 1988 تا1993 کے 3 انتخابی معرکوں میں لاڑکانہ اور چترال سے قومی اسمبلی کی ممبر بنیں۔وہ 1979 سے 1983 تک ppp کی چیرپرسن رہیں۔کردش نسل سے تعلق رکھنے والی نصرت بھٹو کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جہاں اپنے شوہر کو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لئے معاونت کی وہاں زیڈ اے بھٹو کو سیاست کا طلسماتی ستون بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ نصرت بھٹو کی زندگی میں سکھ کی بہاریں کم رہیں جبکہ رنج و الم کی خزاؤں نے اسکی گود میں مسلسل ڈیرے جمائے۔انکے شوہرزیڈ اے بھٹو کو 4 اپریل1979 میں نفرت و حقارت اور زلالت کا نشان بن جانے والے ملٹری ڈکٹیٹر ضیاالحق نے عدالتی قتل کا نشانہ بنایا۔ ابھی شوہر کی پھانسی کے زخموں کا اندمال نہ ہوا تھا کہ انہیں پہلے لاڈلے بیٹے شاہ نواز بھٹو کی مشکوک حالت میں ہلاکت کا صدمہ جھیلنا پڑا۔ شاہ نواز بھٹو کی عمر صرف27 سال تھی۔انکے دوسرے بیٹے مرتضی بھٹو کو1996 میں42 برس کی عمر میں اپنی بہن کے دور وزارت عظمی میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ انکی بیٹی بےنظیر بھٹو کو2007 میں لیاقت باغ پنڈی کے انتخابی جلسہ عام کے تھوڑی دیربعد دہشت گردی کے ہیبت ناک سانحے میں شہید کیا گیا۔ مرتضی بھٹو کی موت نے اس آئرن لیڈی کو لرزا کر رکھ دیا ۔وہ1996 میں سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں۔وہ دبئی کے ہسپتال میں طویل عرصہ بستر علالت پر براجمان رہیں۔سچ تو یہ ہے کہ قوم عرصہ علالت میں انکے حال احوال سے لاعلم رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور اسکے رہنما جونصرت بھٹو کے انتقال پر ٹسوے بہارہے ہیں انہوں نے علیل نصرت بھٹو کو ایک دہائی تک فراموش کئے رکھا۔ دکھ تو یہ ہے کہ پی پی پی قائد عوام بھٹو اور بنظیر بھٹو کی برسیاں اور سالگرہ کی تقریبات تو زور شور سے مناتے آرہے ہیں مگر کسی کا دھیان نصرت بھٹو کی طرف نہ گیا۔1997 تا2011 تک کے عرصہ میں ppp کی چھتر چھاؤں تلے اقتدار کے مزے لوٹنے والے اقتدار کے مجنووں نے نہ تو ex خاتون اول کی جہد مسلسل کو عقیدت کا نذرانہ پیش کرنے کی خاطرایک آدھی تقریب منعقد کی اور نہ ہی کسی نے کبھی سالگرہ منانے کی زحمت گوارہ کی۔وائس آف امریکہ نے ایک رپورٹ میں نصرت بھٹو کے حوالے سے چند یادوں کو یکجا کیا ہے۔voa کے مطابق شوہر کی پھانسی کے بعد نصرت بھٹو نے ایک طرف فوجی ڈکٹیٹر کو للکارا تو دوسری طرف ضیائی مارشلا کے سامنے ہار ماننے سے انکار کردیا۔ وہ مرتضی بھٹو سے والہانہ اور دیوانگی کی حد تک پیار کرتی تھیں۔ شاہنواز بھٹو کو پیرس میں قتل کیا گیا تو میر مرتضی بھٹو نے اصرار کیا کہ وہ اپنے بھائی کی میت کے ساتھ پاکستان جائیں گے جبکہ بنظیر بھٹو میر مرتضی بھٹو کی وطن واپسی کے خلاف تھیں۔بنظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کے مابین تلخی ہوئی۔اس موقع پر نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی کی رائے کو تقویت دی کیونکہ دونوں کو خدشہ تھا کہ ضیاالحق اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نصرت بھٹو جیالوں کے لئے ماں کا درجہ رکھتی تھیں ۔وہ جیالوں پر سختیوں کے پہاڑ ڈھانے والوں سے سخت نفرت کرتی تھیں۔نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں پی پی پی کو سندھ میں اکثریت حاصل تھی مگرہارس ٹریڈنگ کے کلہاڑے سے اکثریت کا سر قلم کردیا گیا۔ قصاب کا کردار جام صادق علی کے حصے میں آیا وہ سندھ کے وزیراعلٰی بن گئے۔جام صادق نے پی پی پی پر ریاستی دہشت گردی کی برسات کردی۔جام صادق اور نصرت بھٹو کا ائیر پورٹ پر آمنا سامنا ہوا تو جام بولے ہیلو ممی۔ نصرت بھٹو نے کہا شٹ اپ باسٹرڈ۔نصرت بھٹو کی رحلت سے پی پی پی اپنی ماں سے محروم ہوچکی ہے۔ پی پی پی کی باگ دوڑ صدر مملکت زرداری کے ہاتھ میں ہے جبکہ بھٹوز کے سیاسی ورثے کے اصل مالکان فاطمہ بھٹو اور زوالفقار بھٹو جونیر ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ موجودہ پی پی پی نے فاطمہ بھٹو اور za جونیر اور ستر کلفٹن کو نظر انداز کررکھا ہے۔بھٹو خاندان اور پی پی پی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ بلاول کو بھٹو ز کے ساتھ جوڑ کر قائد عوام اور نصرت بھٹو کی ارواح کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے۔صدر مملکت زرداری اور وزیراعظم گیلانی اقتدار کی نیا کو بچانے کے لئے نائن زیرو کا دورہ کرسکتے ہیں۔قائدعوام کے قاتلوں اور لیگوں سے محبت اور دوستی کے رشتے استوار کئے جاسکتے ہیں تو پھر ایسی کونسی مجبوری ہے جو پی پی پی کے ان بڑوں کو ستر کلفٹن کا رخ نہیں کرنے دیتی۔نصرت بھٹو کی نمناک اور غمناک موت کا حقیقی درس تو یہ ہے کہ قائد عوام کی نشانیوں کو ساتھ ملایا جائے۔فاطمہ بھٹو اور زوالفقار بھٹو جونیر کو نظر انداز کرنے اور حق تلفیوں کا موجودہ سلسلہ جاری رہا تو بھٹوز کی ارواح عالم بالہ میں تڑپتی رہیں گی۔جب روحیں تڑپتی ہیں تو پھر شیرازہ بندی بھی ہوا کرتی ہے اور تاج بھی اچھالے جاتے ہیں۔بھٹوز کے شیدائی اور جیالے صنم بھٹو سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بھٹو ازم کے فلسفے کی ترجمانی اور نگہبانی کے لئے پی پی پی کی قیادت سنبھالیں ورنہ؟
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.