ماں کی صحت، نسل کی بقا

تحریر: ڈاکٹر زیب النساء(لاہور)
جب بھی صحت عامہ کی بات ہوتی ہے، تو اکثر ہمارا دھیان وبائی امراض، اسپتالوں کی کمی یا دواووں کی مہنگائی کی جانب جاتا ہے۔ مگر ایک ایسا شعبہ جو مسلسل ہماری توجہ کا طالب ہے، وہ ہے "زچہ و بچہ" کی صحت، خصوصاً خواتین کے گائنی مسائل۔ گائنی مریضوں کی تکلیف صرف ان کی اپنی نہیں، بلکہ پوری آئندہ نسل کی صحت اور ترقی سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک تندرست ماں ہی صحت مند نسل کی بنیاد رکھتی ہے۔ لیکن کیا ہم بطور معاشرہ، ریاست اور ذمہ دار شہری اس بنیادی حقیقت کو اہمیت دے رہے ہیں؟آج کی گائنی مریضہ صرف طبی سہولیات کی منتظر نہیں، بلکہ وہ ایک پورے نظام کی بے حسی، عدم توجہی اور پسماندگی کا شکار ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بیڈ نہیں، ماہر گائناکالوجسٹس موجود نہیں، پرائیویٹ اسپتالوں کی فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور دیہی علاقوں میں تو صورتحال اس قدر ابتر ہے کہ بیشتر خواتین بغیر کسی طبی سہولت کے گھروں میں ہی پیچیدہ زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں، جس کا انجام اکثر ماں یا بچے کی زندگی کی قیمت پر ہوتا ہے۔یہ حقیقت بھی افسوسناک ہے کہ ایک طرف ہم ترقی اور ٹیکنالوجی کے دعوے کرتے ہیں، تو دوسری طرف دیہی خواتین آج بھی ابتدائی طبی علم سے محروم ہیں۔ ایک ماں کی صحت اس لیے نظر انداز ہوتی ہے کیونکہ وہ عورت ہے، کیونکہ وہ اپنے درد کو اہمیت نہیں دیتی، اور کیونکہ سماج اسے "جذباتی" قرار دے کر خاموش کرا دیتا ہے۔ معاشرتی بے حسی، طبی اداروں کی نااہلی اور حکومتی غفلت نے مل کر گائنی مریضہ کو ایک "خاموش قربانی" بنا دیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس مسئلے کی جڑ کہاں ہے؟ اگر ہم حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو ہمیں یہ بحران صرف صحت کے نظام میں نہیں بلکہ میڈیکل تعلیم، معاشی عدم توازن اور حکومتی ترجیحات میں بھی نظر آتا ہے۔پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم دن بدن مہنگی، پیچیدہ اور مایوس کن ہو رہی ہے۔ سرکاری ادارے محدود نشستوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جبکہ نجی میڈیکل کالج "تعلیم" کے نام پر "تجارت" کر رہے ہیں۔ ایک متوسط گھرانے کا بچہ اگر ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھے تو اس کے سامنے لاکھوں روپے کی فیس کی دیوار کھڑی ہوتی ہے۔ وہ یا تو اس خواب کو دفن کر دیتا ہے یا پھر بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ ہر سال ہزاروں ہونہار طالب علم روس، چین، ہنگری، آذربائیجان، برطانیہ یا خلیجی ممالک میں داخلہ لے رہے ہیں، کیونکہ یہاں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔یہ "برین ڈرین" اس ملک کے لیے ایک دوہرا نقصان ہے۔ ایک طرف ہم قیمتی انسانی وسائل سے محروم ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف عوام ماہر ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو رہی ہے۔ گائنی جیسا نازک شعبہ، جہاں خواتین ڈاکٹر کی موجودگی سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے، آج بھی عملے کی کمی، ٹریننگ کی کمی اور حکومتی توجہ کی کمی کا شکار ہے۔ دیہی علاقوں میں تو کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں پورے اسپتال میں ایک بھی گائناکالوجسٹ موجود نہیں۔یہ تمام مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب میڈیکل تعلیم مہنگی ہوگی، جب ہونہار طالب علموں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی، جب غریب مریضہ سرکاری اسپتال میں خوار ہوگی اور جب صحت کے شعبے کو ہر بجٹ میں آخری نمبر پر رکھا جائے گا،تو پھر نتیجہ وہی ہوگا جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ایک اور اہم مسئلہ جو ابھر کر سامنے آ رہا ہے وہ ہے شعبہ صحت پر مختلف مافیاز کی اجارہ داری۔ پرائیویٹ اسپتال اور لیبارٹریز، ادویات ساز کمپنیاں، اور حتیٰ کہ بعض تعلیمی ادارے بھی "خدمت" کے بجائے "منافع" کو ترجیح دے رہے ہیں۔ نتیجتاً ایک غریب عورت جو صرف اپنی اور اپنے بچے کی جان بچانا چاہتی ہے، وہ قرضوں کے جال میں پھنستی ہے، یا پھر خاموشی سے موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ سچائیاں دیکھی ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے دل کانپتا ہے۔ ایک ماں جو اپنے پانچویں بچے کی پیدائش کے وقت شدید پیچیدگی کا شکار ہوئی، مگر شوہر کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں آپریشن کروا سکے۔ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر موجود نہیں تھا، اور نتیجتاً وہ ماں دنیا سے رخصت ہو گئی۔ کیا اس کی موت کے ذمہ دار ہم سب نہیں؟اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خوابوں سے نکل کر عملی اقدامات کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ:
1. *میڈیکل تعلیم کو سستی اور عام فہم بنائے۔*
2. *ہر ضلع میں گائنی اسپیشلسٹ کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔*
3. *دیہی علاقوں میں موبائل میڈیکل یونٹس اور خواتین ہیلپ سینٹرز قائم کیے جائیں۔*
4. *سرکاری اسپتالوں کو جدید آلات اور ادویات سے آراستہ کیا جائے۔*
5. *پرائیویٹ اداروں پر ریگولر چیک اینڈ بیلنس ہو تاکہ مریضوں کا استحصال نہ ہو۔*
آخر میں، میں قوم، حکومت، اداروں اور بطور خاص میڈیا سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ خواتین کی صحت کو محض "نجی مسئلہ" نہ سمجھیں بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ جب ایک ماں صحت مند ہوگی، تب ہی معاشرہ صحت مند ہوگا۔ جب ایک طالب علم کو اپنے ملک میں تعلیم اور عزت ملے گی، تب ہی وہ یہاں خدمت کرے گا۔ جب شعبہ صحت کو ترجیح دی جائے گی، تب ہی پاکستان ایک فلاحی ریاست کہلانے کا حق دار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 139 Articles with 159080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.