سمندر پار کے آزار
(رعنا تبسم پاشا, Dallas, USA)
متوسط و نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اوور سیز کے گھرانوں میں
ساری زندگی اسلامی تعلیمات سے روگردانی اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات
کی صریح نافرمانی کے بعد جب جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو سب کو
اسلامی قوانین یاد آ جاتے ہیں ۔ پردیسی بکرے کی کمائی سے بنائی گئی جائیداد
میں پورا پریوار برابر کا حصہ دار بن جاتا ہے بغیر کسی محنت اور قربانی کے
، کیونکہ کاغذات ابا کے نام پر ہیں ۔
ویسے تو بینک سے لیے گئے لون کے کاغذات بھی ابا ہی کے نام پر ہوتے ہیں مگر
اس کی ادائیگی میں کوئی حصہ نہیں ڈالتا قرض سب مل کر نہیں اُتارتے وہ صرف
اُسی باہر بیٹھے عقل کے اندھے کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ پردیس میں اپنی جاب کے
ساتھ ساتھ اوور ٹائم لگا کے پارٹ ٹائم کام کر کے خود تنگی اور تکلیف اٹھا
کر پورے پریوار کے خرچے کے ساتھ لون کی قسط ادا کرنا بھی اُسی بکرے کا فرض
ہوتا ہے ۔ اُسی کی بیوی نوکرانی بنی ہوئی ہوتی ہے، بچے یتیموں کی طرح پل
رہے ہوتے ہیں ۔ اُن کے باپ کی کمائی سے سب کے وارے نیارے ہوئے رہتے ہیں ۔
اور اکثر ہی اس قبیل کے گھرانوں میں ایسے ایسے ستم ظریف پائے جاتے ہیں کہ
پیر قبر میں لٹک چکے ہیں مگر یہ ابھی تک خود اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوئے
۔ کیونکہ مسلسل میسر آنے والی مالی معاونت نے انہیں طفیلیہ ہی بنا چھوڑا ہے
۔
آئے دن یو ٹیوبرز اور ویلاگرز ایسے تباہ حال پیرانہ سال پردیس پلٹ نابغوں
کے انٹرویوز کرتے نظر آتے ہیں کہ جنہوں نے تیس تیس چالیس چالیس سال تک دیار
غیر میں اپنا خون پسینہ ایک کیا جو کمایا وہ اپنے والدین کے ہاتھ میں دیا
جس سے وہ اپنے دوسرے بیٹوں اور دامادوں کے مستقبل کو محفوظ بناتے رہے ۔ خود
اِن کی بیوی کا نہ کوئی بینک اکاؤنٹ اور نہ ہی کسی پراپرٹی میں اُس کا نام
۔ پھر جب اِن کی ہمت اور صحت جواب دے گئی مزید محنت مشقت کے قابل نہ رہے تو
بیماریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے اپنی منکوحہ کے یہ مجرم جب خالی
ہاتھ واپس آئے تو خود اپنے سگوں خون کے رشتوں نے پہچاننے سے بھی انکار کر
دیا ۔ کچھ تو دھکے مار کر اُسی گھر سے نکالے گئے جو اُنہی کی کمائی سے
بنایا گیا تھا ۔ بیوی بچوں کو اپنے بغیر رہنے کی عادت ڈال دی تھی تو اب
اُنہوں نے اُسی عادت کے ساتھ جینا سیکھ لیا تھا اب اُنہیں اِس لُٹے پِٹے
تباہ حال احمق بوڑھے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جو اِنہیں اپنے خود غرض شاطر و
بےضمیر گھر والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اُن کی عیاشیاں پوری کرنے کے لئے
پردیس جھیل رہا تھا ۔ جو وقت اپنے بجوں کی تربیت اور انہیں اپنی رفاقت مہیا
کرنے کا تھا تو اُس میں وہ اپنے پورے خاندان کی کفالت میں مشغول تھا ۔ جس
عورت نے اپنی پوری جوانی شوہر کے بغیر کسی بیوہ کی طرح گزاری ہو سالانہ ایک
ماہ کی اوسط سے تک اسے شوہر کا ساتھ نصیب نہ ہوا ہو تو اب وہ بڑھاپا کیوں
اس شخص کی میڈ بن کر گزارے؟ جو کبھی اِس کی ایک نہیں سنتا تھا، آنکھوں پر
اپنوں سے اندھی محبت کی پٹی باندھے اُنہی کی فرمائشیں اور مطالبات خود اپنے
بیوی بچوں کا حق حصہ مار کر پورے کیا کرتا تھا ۔
صرف شراب، سؤر، رشوت ہی حرام نہیں ہوتے۔ کسی کا حق حصہ بھی حرام ہی ہوتا ہے
اور اسے کھانے والا نمک حرام ہوتا ہے وفادار نہیں وہ اپنے سارے مطلب پورے
ہوجانے اور آپ کے اب کسی کام کے نہ رہ جانے کے بعد آپ سے غداری ہی کرتا ہے
چاہے وہ آپ کا کتنا ہی قریبی خون کا رشتہ کیوں نہ ہو ۔ آپ کی حلال کی کمائی
میں سے جو حصہ کسی حقدار کا تھا اور اُسے محروم کر کے وہ آپ نے ناحق کسی
اور پر لگا دیا تو اب آپ اُس سے کسی احسانمندی یا شکرگزاری کی امید نہیں
رکھیے حرام کے لقمے میں وفا نہیں ہوتی ۔ اور ضروری نہیں ہے کہ ایسا صرف
پردیسیوں ہی کے ساتھ ہوتا ہے جو پردیس نہیں جاتے مگر حرکتیں ساری اُنہی
جیسی ہوتی ہیں تو وہ بھی آخر میں اسی انجام سے دوچار ہوتے ہیں ۔ آپ جن
رشتوں کو خود اپنی ذاتی زندگی کی قیمت پر خوش رکھنے میں عمر گنوا دیتے ہیں
پھر اُن کی بےاعتنائی اور طوطا چشمی سہنے کے لئے بھی تیار رہیں ۔ زندگی سے
ہم کو ایک سبق یہ بھی ملا ہے کہ اس دنیا میں جیت اُنہی کی ہے جو خدا سے
نہیں ڈرتے نہ قبر میں ہونے والے سوال و جواب کی کوئی فکر نہ آخرت کی پوچھ
پکڑ کی کوئی پروا ۔ یہی لوگ خوب پھل پھول رہے ہوتے ہیں کسی مکافات و مؤاخذے
کا شکار ہوئے بغیر یہ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں پِسنے والوں
کے حصے میں صرف پسپائی اور رسوائی ۔
جن جن اوورسیز کو اس تحریر میں کچھ کچھ اپنے ہی حالات کی جھلک نظر آ رہی ہے
وہ خدا کے لئے اپنی آنکھیں کھولیں ہوش میں آئیں تدبیر و توازن کی راہ
اپنائیں ورنہ ایک عبرتناک بڑھاپا آپ کا منتظر ہے ۔ اگر آپ کے حالات اور ذمہ
داریاں ایسی ہیں کہ آپ بیوی کے بنیادی حقوق ادا کرنے سے قاصر ہی رہیں گے تو
شادی مت کریں کنوارے مر جائیں مگر کسی لڑکی کو جیتے جی مرنے کے لئے نہ چھوڑ
دیں ۔ اگر صرف رسم ہی نبھانی ہے اپنا جنازہ ہی جائز کرانا ہے تو کسی ایسی
بیوہ مطلقہ یا عمر رسیدہ سے دو بول پڑھوا لیں جس کی کسی طرح دوسری شادی نہ
ہو رہی ہو ، اُسے صرف سماجی تحفظ درکار ہو اور وہ اپنے سب شرعی حقوق سے
دستبردار ہو کر بس اتنے ہی کو غنیمت جاننے پر راضی ہو ۔ اور اگر آپ کی شادی
ہو چکی ہے اور ایسے ہی حالات و معاملات چل رہے ہیں جن کی اوپر نقشہ کشی کی
گئی ہے تو بس اپنے دل سے ہر ڈر کو نکال کر وہاں صرف اس خوفِ خدا کو جگہ دے
دیں کہ آپ سے پوچھا جائے گا بہت سختی کے ساتھ باز پرس ہو گی عدل نہ رکھنے
اور عقل نہ پکڑنے پر ۔ یاد رکھیں اپنی قبر کے اندر جواب آپ نے ہی دینا ہے
اُن میں سے کوئی بھی وہاں آپ کی مدد کے لئے نہیں آئے گا جن کے لئے آپ اس
وقت اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں ۔
✍🏻 رعنا تبسم پاشا
|
|