ایران اور اسرائیل جنگ کون جیتا کون ہارا۔

اس صورتحال میں اسرائیل کا موقف بھی عجب ہے کہ وہ ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، خصوصاً اس کے جوہری پروگرام کو لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی اسلامی ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہی خطرہ کیوں ہے ۔ ایران کے ساتھ ان بارہ دنوں میں جو کچھ امریکہ و اسرائیل نے کیا اس سے ثابت ہوگیا کہ ایران کو بھی جوہری ہتھیار بنانے کا حق حاصل ہے ۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ کیا اس مسئلے کا حل صرف حملوں، بمباریوں، اور معصوم جانوں کے ضیاع میں ہے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ دونوں ممالک سفارتی ذرائع سے تنازعات کا حل نکالتے؟ بدقسمتی سے جب طاقت، انا، اور مذہبی شدت پسندی فیصلہ سازی پر غالب آ جائے تو امن کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگی کشیدگی ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کو آگ و خون میں نہلا گئی۔ اگرچہ یہ ٹکراؤ برسوں پرانا ہے، لیکن حالیہ جھڑپوں اور حملوں نے خطے کو ایک سنگین انسانی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

ہم جس دور میں جی رہے ہیں یہاں کون جیتا کون ہارا اس کا اندازہ بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے پہلے وقتوں میں جب جنگ ہوا کرتی تھی تو ظاہر ہے فتح اور شکست کی کسوٹی ایک ہی تھی جس جگہ پر حملہ کیا گیا ہے اس جگہ پر قابض ہو گئے قبضہ کر لیا اپنا جھنڈا لہرا دیا تو وہ جیتا اور جس نے اپنی وہ جگہ کھودی وہ ہارا لیکن اب جدید ٹیکنالوجی سے جنگیں لڑی جا رہی ہیں ان جنگوں کی کامیابی اور ناکامی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مالی اور سفارتی نقصان کس کا زیادہ ہوا ۔ ایران و اسرائیل کی جدید ترین جھڑپیں رہیں اس میں ایران کی کسی بھی فوج نے اپنے بارڈر تک کو عبور نہیں کیا۔ ایران کی زمینی ،فضائی، بحری تینوں افواج اپنی جگہوں پر اپنی حدود میں رہیں ۔ ایران نے اسرائیل پر میزائلوں سے جوابی حملے کیے انہوں نے قطر میں امریکی اڈے کو نشانہ بنایا جو جدید ترین جنگ کا ایک حصہ تھا ۔ اس بارہ روزہ جنگ میں کس کی فتح ہوئی اور کس کی شکست ! ایران کو دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی فتح ہے کہ ایران تنہا اپنا دفاع کر رہا تھا نہ صرف دفاع کر رہا تھا بلکہ اپنے اوپر ہونے والے ہر حملہ کا جواب بھی دے رہا تھا وہ بھی اپنے ملک کے اندر بیٹھ کر جب کہ اسرائیل نے اپنی فضائی فوج کے ذریعے بھارت کی فضائی حدود استمال کرتے ہوئے ایران پر حملے کیے گیارہ روز بعد اسرائیل کا ساتھ دینے امریکہ بھی جنگ میں کودا اور ایک دن اس نے زبردست بمباری کی اور باقول امریکہ کے کہ اس نے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات کو بالکل ختم کر دیا جب کہ ایران اس دعوے کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایٹمی تنصیبات کے داخلی اور خارجی راستوں کو کچھ نقصان ہوا ہے لیکن اگر اسرائیل کی طرف دیکھا جائے تو اسرائیل کا انفراسٹرکچر کافی حد تک تباہ ہو گیا ہے اور یہ بھی ایران کی ایک کامیابی ہے کہ اسرائیل کا آئرن ڈوم سسٹم جو باقول اسرائیل کے ناقابل تسخیر تھا ایک جانب تو ایران نے اسرائیل کے اس غرور کو خاک میں ملا ڈالا، دوسری جانب خطے میں اسرائیل کا خوف کم کرنے میں بھی کسی حد تک کامیاب رہا ۔اسرائیل بھی اچھے سے جان چکا کہ اس کا مقابلہ کرنے والا کوئی اور خطہ میں موجود ہے۔

ان 12 دنوں کی جنگ میں ایک چیز بڑی حیران کن تھی جنگ میں جو اچانک ڈرامائی تبدیلی آئی اور پھر سیز فائر کی بات کی جانے لگی سیز فائر کی بات بھی اس جگہ سے کی جانے لگی جو رجیم چینج کی بات کر رہے تھے جو ایران کی حکومت کو ختم کرنے کی بات کر رہے تھے جو آیت اللہ خامنائی کے بارے میں کہتے تھے کہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ کہاں چھپے ہوئے ہیں اور اسرائیل ان کو قتل کرنے کے در پہ تھا اس کے بعد ایک دم جو یوٹرن لیا گیا اور ٹرمپ نے اعتراف کیا میڈیا کے سامنے کہ جنگ کے آخری دنوں میں اسرائیل کو بڑی بری مار پڑی ہے اور اسرائیل کی بڑی بڑی بلڈنگیں تباہ ہو گئی ہیں ساتھ ہی کہہ ڈالا کہ ایران بہادر قوم ہے ایرانی اچھے لوگ ہیں لیکن آپ غور کریں تو یہ سب کچھ اس وقت سے شروع ہوا جب ایرانی وزیر خارجہ آیت اللہ خامنہ ای کا خصوصی پیغام لے کر روسی صدر کے پاس گئے اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ روسی صدر سے جاری جنگ میں مدد کی اپیل کی گئی تھی اور ایسا ہی کچھ چین ترکی اور شمالی کوریا کی طرف بھی ایران کے وفد کے جانے کا امکان موجود تھا ، اسرائیل یہ خطرہ بھانپ گیا تھا کہ اگر یہاں سے مدد آگئی تو پھر خطے کی صورتحال یکسر تبدیل ہو جائے گی اور پھر اسرائیل کے لیے بہت مشکل پیدا ہو جائے گی اس لیے سیز فائر کی بڑی جلدی تھی ۔
بارہ روزہ جاری جنگ میں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایران کی کئی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس میں میزائل ڈیفنس سسٹم، ریڈارا سٹیشنز اور فوجی اڈے شامل تھے۔ ان حملوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے، جن میں نہ صرف فوجی افسران و قابل سائنس دان بلکہ عام شہری بھی شامل تھے۔ کئی شہروں میں بجلی اور پانی کی فراہمی متاثر ہوئی، اسپتالوں پر بوجھ بڑھ گیا، اور عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

اس صورتحال میں اسرائیل کا موقف بھی عجب ہے کہ وہ ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، خصوصاً اس کے جوہری پروگرام کو لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی اسلامی ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہی خطرہ کیوں ہے ۔ ایران کے ساتھ ان بارہ دنوں میں جو کچھ امریکہ و اسرائیل نے کیا اس سے ثابت ہوگیا کہ ایران کو بھی جوہری ہتھیار بنانے کا حق حاصل ہے ۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ کیا اس مسئلے کا حل صرف حملوں، بمباریوں، اور معصوم جانوں کے ضیاع میں ہے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ دونوں ممالک سفارتی ذرائع سے تنازعات کا حل نکالتے؟ بدقسمتی سے جب طاقت، انا، اور مذہبی شدت پسندی فیصلہ سازی پر غالب آ جائے تو امن کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔
آخر میں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے: کیا ایران اور اسرائیل اس آگ کو ٹھنڈا کرنے پر آمادہ ہوں گے یا مشرقِ وسطیٰ ایک اور طویل اور تباہ کن جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے؟ دنیا کی نظریں ان پر ہیں، اور وقت بتائے گا کہ عقل غالب آتی ہے یا انا۔
 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 145 Articles with 184783 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More