دریائے سوات میں سیلفیوں سے موت تک کا سفر

یکم محرم الحرام جمعہ 27 جون 2025 کو سوات میں آنے والے سیاح دریائے سوات میں سیلابی ریلے کے نذر ہوئے دلخراش واقعہ کی تفصیلات جس میں ذمہ داروں کی غفلت متاثرہ خاندانوں کو عمر بھر رُلائے گی!

دریا خاموش تھا۔ پانی کم تھا۔ ہوا میں ہلکی سی نمی تھی۔ کچھ بچے دریا کے پاٹ میں اتر کر سیلفیاں بنا رہے تھے، کچھ گنگنا رہے تھے۔ پوز بن رہے تھے، ہنسی گونج رہی تھی، خوشیاں لہک رہی تھیں۔ وہ لمحے کتنے خوش کن تھے۔ مگر زندگی کی کہانی کب، کہاں اور کیسے پلٹا کھا جائے… کوئی نہیں جانتا۔

یہ سانحہ 27 جون کو مینگورہ بائی پاس سوات میں پیش آیا، جب سیالکوٹ ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے خاندان سمیت مختلف علاقوں سے تفریح کی غرض سے آئے سیاح دریائے سوات کے کنارے ناشتہ کرنے کے بعد کچھ دیر سکون کا سانس لیا اور پھر دریا کے کنارے وقت گزارنے نکلے۔ لیکن یہ لمحہ ان کی زندگی کا آخری لمحہ بن جائے گا، اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔

اچانک میلوں دور پہاڑوں سے آیا پانی کا بے رحم ریلا ان کی طرف بڑھنے لگا۔ دریا جو کچھ دیر پہلے بالکل خالی لگ رہا تھا، آناً فاناً موجزن ہو گیا۔ وہ سب بدحواس ہو گئے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے لگے۔ بچوں کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ چیخیں گونجنے لگیں۔ "بچاؤ! بچاؤ!" کی صدائیں اردگرد گونج رہی تھیں۔ لیکن دریا نے جیسے سب کچھ نگلنے کی ٹھان لی تھی۔
ایک ایک کر کے وہ دریا کی بے رحم موجوں میں گم ہوتے گئے۔ 18 افراد پانی کی زد میں آئے، جن میں 10 کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ دن کے اختتام تک 6 لاشیں نکالی جا چکی تھیں ، 3 افراد کو زندہ بچا لیا گیا جبکہ 10 افراد کی تلاش جاری رہی۔

لیکن باقی اب صرف امیدوں کے سہارے زندہ ہیں۔

متاثرہ خاندان کے ایک رکن احمد علی نے بتایا "ہم ناشتہ کر کے دریا کنارے بیٹھے تھے، بچے خوشی سے سیلفیاں لے رہے تھے، بارش شروع ہوئی، اور پھر اچانک ریلہ آیا۔ ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔"

یہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ بے حسی، لاپرواہی، اور ادارہ جاتی ناکامی کی دردناک تصویر بھی ہے۔ مون سون کے پیشِ نظر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پہلے ہی دفعہ 144 نافذ تھی۔ دریا کے کنارے جانے پر پابندی عائد تھی، لیکن وارننگز کو مذاق سمجھا گیا اور خوشیاں موت میں بدل گئیں۔

ریسکیو 1122 کی کارکردگی اس حادثے میں قابلِ افسوس رہی۔ اطلاع ملنے کے باوجود اہلکار ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچے۔ جب پہنچے بھی تو ان کے پاس مناسب ساز و سامان موجود نہ تھا۔ کئی متاثرین مدد کے لیے چیختے رہے، لیکن امداد وقت پر نہ پہنچ سکی۔ آخرکار، اہلکار منظر سے ہی غائب ہو گئے اور رابطہ نمبرز بھی بند کر دئیے۔ اس سے بڑھ کر بدترین ناکامی اور کیا ہو سکتی ہے؟

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور ریسکیو اداروں کو فوری امدادی اقدامات کی ہدایات جاری کی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے حادثات کے بعد صرف تعزیت اور ہدایات کافی ہیں؟

کیا ہماری جانیں اتنی سستی ہیں کہ ادارے وقت پر نہ پہنچیں اور پھر بھی کوئی جوابدہ نہ ہو؟

میرا دل ان والدین کے لیے رو رہا ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو خوشی سے سفر پر روانہ کیا تھا۔ وہ تصویریں جو موبائل میں قید ہیں، اب صرف یادیں رہ جائیں گی۔ وہ ہنسی، وہ خوشی، اب صرف خاموشی میں گم ہو چکی ہے۔

اے میرے رب…

ہمیں ایسی ناگہانی اموات سے بچا، ہمیں توبہ کی مہلت دے، ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور جو حآدثہ کا شکار ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور جو ان کے لواحقین ہیں ان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرما! آمیــــن ۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 108 Articles with 76847 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.