آزمائش یا سزا ( دوسرا اور آخری حصہ)


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
میں نے اس موضوع کی مناسبت سے اس کے پہلے حصے میں آپ تک یہ بات پہنچانے کی کوشش کی کہ آزمائش اور سزا میں فرق کیا ہے اور کن وجوہات کی بناء پر اللہ تعالیٰ کن کن بندوں کو اپنی منشاء ، مصلحت اور حکمت کے پیش نظر آزمائش میں ڈالتا ہے جبکہ اس رب کی نافرمانی اور اس کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا یعنی عذاب کا مستحق قرار دیتا ہے آج ہم کچھ واقعات کو اپنی تحریر میں شامل کرنے کی سعادت حاصل کریں گے جن سے ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ آزمائش کیوں ، کب اور کن لوگوں پر آتی ہیں اور ان آزمائشوں پر کیسے پورا اترا جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے جو واقعہ یہاں میں تحریر کرنے جارہا ہوں وہ ایک سچا واقعہ ہے ایک شخص جس کا نام شہزاد تھا پڑھ لکھ کر اعلی تعلیم حاصل کرکے پاکستان سے برطانیہ ایک اچھی فرم میں نوکری مل جانے کے سبب چلا جاتا ہے کچھ عرصہ گزارنے کے بعد جب اسے کافی مال و دولت اور آسائشیں حاصل ہوگئیں تو اس نے وہاں ایک مسلم لڑکی سے شادی کرلی وہ لڑکی بہت نیک اور دینی ذہنیت کی لڑکی تھی لیکن شہزاد کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ اسے اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھنے کی بجائے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت سمجھتا تھا اور اس بات پر اس کی اپنی بیوی سے اکثر بحث ہوجاتی کیونکہ اس کی بیوی ہمیشہ اسے کہتی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے اس کا شکر ادا کیا کرو لیکن وہ تکبرانہ انداز میں مسکراتا ہوا گزر جاتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کچھ عرصہ میں اس کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی دونوں بہت خوش تھے خاص طور پر شہزاد کی بیوی اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر ادا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے کی شکل میں اتنی بڑی نعمت سے نوازا تھا وقت گزرتا گیا اور جب اس کا بیٹا پانچ سال کا ہوا تو اس کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی شہزاد اور اس کی بیوی اسے لیکر فوری طور پر ہسپتال پہنچتے ہیں جہاں ڈاکٹروں نے اس بچے کے مختلف ٹیسٹ کیئے اور جب ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو ڈاکٹر بھی پریشان ہوگئے کہ اس بچے کو کچھ عجیب سی بیماری تھی جس کی وجہ سے نہ وہ کھا سکتا تھا نہ ہی سکتا تھا اور نہ ہی بول سکتا تھا اس بچے کی یہ حالت دیکھ کر دونوں پریشان ہوگئے ڈاکٹروں نے مزید کچھ نئے ٹیسٹ کیئے لیکن ان ٹیسٹ کی رپورٹس نے ڈاکٹروں کے دماغ مائوف کردئیے یعنی ہر ٹیسٹ میں ایک نئی بیماری کا انکشاف ایک ڈاکٹر کے مطابق جو وہاں کے سینئیر ڈاکٹر تھے کہ ان کے کیرئیر میں انہوں نے اس سے پہلے ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہسپتال کے ڈاکٹروں نے شہزاد کو کچھ دوائیاں لکھ کر دی اور کہا کہ ہمارا ایک پینل اس پر میٹنگ کرے گا اور آگے کا لائحہ عمل طے کرے گا جب تک آپ اس بچے کا خیال رکھیں اور دوائیاں وقت پر کھلاتے رہیں یوں وہ اس بچے کو لیکر گھر آگئے شہزاد کی بیوی کی ایک دوست نے اس سے کہا کہ تم چونکہ دینی ذہن رکھنے والی لڑکی ہو تو اس بچے کا روحانی علاج کروا کر دیکھو پھر اس نے وہاں کے ایک مستند اور نیک عالم دین کا ایڈریس دیا اور کہا کہ تم شہزاد بھائی کو لیکر وہاں جائو اللہ سب ٹھیک کردے گا تب اس نے اپنے شوہر یعنی شہزاد سے کہا لیکن شہزاد ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا اور کہنے لگا کہ یہ بیماری ہے اور بیماریوں کا علاج ڈاکٹروں کے پاس ہوتا ہے مولویوں کے پاس نہیں لیکن زبردستی کرنے اور اس کی آنکھوں میں آنے والے آنسو کو دیکھ کر اس نے حامی بھرلی اور وہ دونوں اس عالم دین کے پاس پہنچ گئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں برطانیہ میں موجود یہ ایک مستند اور کافی معروف عالم دین تھے شہزاد اور اس کی بیوی نے انہیں ساری بات بتائی اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں تو ان عالم دین نے کچھ وظائف پڑھنے کے لیئے دیئے اور ایک آیت کم و بیش تین دن تک پڑھ کر پانی پر دم کرکے اس بچے کو پلانے کے لیئے کہا اور زور دیا کہ یہ عمل دونوں والدین کو کرنا ہوں گے شہزاد ان عالم دین کی بات کو اگنور کرتے ہوئے وہاں سے باہر کی طرف نکل گیا جس کی وجہ سے اس کی بیوی کو شرمندگی ہوئی لیکن اس نے علامہ صاحب سے عاجزی کے ساتھ اجازت لی اور شہزاد کے پیچھے گئی جبکہ علامہ صاحب کو شہزاد کی ان باتوں پر یقین نہ رکھنے کا بھی پوری طرح سے اندازہ ہوگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہاں ڈاکٹرز پریشان تھے کہ ہر روز اس بچے میں کسی نئی بیماری کا انکشاف ہورہا تھا یہ سارے معاملات جہاں ڈاکٹرز کے لیئے پریشانی کا باعث تھے وہاں شہزاد اور اس کی بیوی پر بھی کڑی آزمائش کا وقت تھا اور شہزاد کی بیوی ہر وقت دعائوں میں مصروف ہوتی اور اس آزمائش سے بخوبی نکلنے کی رب تعالی کے حضور التجا کرتی رہتی پھر ایک دن ڈاکٹرز نے شہزاد سے کہا کہ ہم نے جو کوشش کرنا تھی ہم کرچکے اب ہم بے بس ہیں آپ اپنے بچے کو لے جائیں اور اس کا خیال رکھیں یہ بات شہزاد کے دماغ میں بجلی بن کر گری اور وہ ڈاکٹروں کو بے بس دیکھ کر پریشان ہوگیا اب پورا پورا دن وہ اپنے بچے کو دیکھتے رہتے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری رہتے میں نے پہلے بھی کہا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے کسی بندے کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو ان پر آزمائش ڈالتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ دنیا کے سارے استادوں سے بڑھ کر اگر کوئی آپ کو اچھا سبق سکھا سکتا ہے تو وہ وقت ہے بس یہاں بھی وقت نے شہزاد کو مجبور کیا اور ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ عالم دین نے جس آیت کے پڑھنے کا کہا تھا مجھے وہ آیت بتائو ہم مل کر پڑھتے ہیں اس کی بیوی خوش ہوئی اور پھر دونوں نے مل کر وہ وظیفہ شروع کیا اور اس پر عمل کرنا شروع کردیا دونوں نے سچے دل سے یہ عمل پڑھنا شروع کردیا بس تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ بچے کی طبیعت سنبھلنا شروع ہوگئی وہ اٹھ کر باتیں کرنے لگا کھانا کھانا بھی شروع کردیا اور جب کچھ دنوں کے کے بعد اس کو ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیئے لے گئے تو ڈاکٹر بھی حیران ہوگئے کہ اس کے سارے ٹیسٹ نارمل ہونا شروع ہوگئے ڈاکٹرز اس معجزہ سے پریشان تھے اور شہزاد کو بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود آیتوں کی برکتوں کا بخوبی اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ جب دنیا کے سارے لوگ بے بس ہو جائیں تو پھر وہ رب تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے اور اس رب تعالی نے ہیں اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو چن کر اپنے دوسرے بندوں کی رہنمائی کے لیئے مقرر فرماتا ہے اور وہ وسیلہ بن کر لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لے آتے ہیں جیسے وہاں کے عالم دین نے کیا لیکن ہمارا یہ یقین ہونا چاہئے کہ جب سارے دروازے بند ہو جائیں تو پھر صرف ایک دروازہ باقی رہتا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہر وقت ہر لمحہ کھلا ہوتا ہے اور وہ دروازہ ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا دروازہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے اس مضمون کے پہلے حصے میں لکھا تھا کہ ازمائش اور سزا میں فرق یہ ہے کہ آزمائش میں سجدے طویل ہوجاتے ہیں جبکہ سزا میں گناہ طویل ہوجاتے ہیں بالکل اسی طرح آزمائش کے دوران اگر ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے رہیں اور رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں تو اللہ رب العزت ہمیں اس آزمائش میں سرخرو کردیتا ہے اور شہزاد کے بچے کی طبیعت ٹھیک ہوجانے والی نعمتوں کی طرح ہم اپنی رحمتوں کی بارش چھما چھم برسانا شروع کر دیتا ہے بس شرط یہ ہی ہے کہ ہم تکلیف میں پریشانی میں مصیبت میں صبر اور شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور کوئی خطا ہو بھی جائے تو رب تعالی بارگاہ میں توبہ کرلیں اور واپس لوٹ آئیں جیسے شہزاد کو احساس ہوا اور اس نے اپنی بیوی سے علامہ صاحب کی بتائی ہوئی قرآنی آیت پڑھنے کے لیئے کہا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرنے اور عذاب مسلط کرنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ چاہے تو بندے کو بیشمار مال ودولت دیکر آزماتا ہے تو کسی کو غربت کی زندگی میں مبتلا کرکے آزماتا ہے کسی کو اولاد جیسی نعمت سے محروم کرکے آزماتا ہے تو کسی کو نافرمان اولاد دیکر آزماتا ہے یعنی وہ رب تعالیٰ اپنی منشاء ، مصلحت ، مرضی اور حکمت کے پیش نظر اپنے بندوں کو مال ،اولاد اور جان کسی میں بھی آزما سکتا ہے اور بعض اوقات انسان پر آنے والا عذاب بھی آزمائش کی شکل اختیار کر جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس عذاب کے خوف سے وہ انسان توبہ کا دروازہ کھٹکھٹا لے تو وہ رب پھر بھی بڑا معاف کرنے والا ہے اور اگر نہیں تو وہ عذاب اس کا مقدر بن کر اس پر مسلط کردیا جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی حکمت کے پیش نظر آزمائش ڈالتا ہے آیئے اب ہم ایک حدیث مبارکہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جو ایک واقعہ کی شکل میں ہے یعنی حدیث مبارکہ بھی اور واقعہ بھی یہ صحیح البخاری کی حدیث مبارکہ ہے جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے مریض کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے مریض کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔
فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ صحیح البخاری کی حدیث مبارکہ نمبر 3464 ہے جہاں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو پریشانی یا مصیبت میں ڈالتا ہے تو یہ بھی اس کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور جب اس پریشانی سے اسے نجات بخش دیتا ہے تو یہ بھی آزمائش ہوتی ہے اب اگر وہ آزمائش میں صبر و شکر کے پورا اترتا ہے تو نابینا آدمی کی طرح اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور اگر آزمائش میں پورا نہیں اترتے اورکوڑھی کے مریض اور گنجے کی طرح نافرمان ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ عذاب بڑا سخت ہے اور یہاں ہمیں آزمائش اور سزا کے درمیان فرق کا بھی واضح طور پر پتہ چلتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آزمائش انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے جتنی زیادہ محبت کا دعویدار ہوگا اسے اتنی ہی بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آزمائش کسی گناہ کے سبب نہیں آتی بلکہ گناہوں کو مٹانے اور درجات کے بلندی کے لیئے آتی ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور حضور ﷺ نے احادیث مبارکہ میں بالکل واضح انداز میں بیان فرمایا ہے آزمائش تو آنی ہے لیکن بات یہ ہے کہ آزمائش بڑی ہو یا چھوٹی اس پر صبر کیا جائے اور اس آزمائش سے اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر گزرا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ وہ انعامات عطا فرماتا ہے جو انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک عورت تھی وہ خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھی اور زبان پر ایک ہی بات تھی " یااللہ میں اس حالت میں بھی راضی ہوں " وہ یہ جملہ زبان سے ادا کرتی ہوئی طواف میں مصروف تھی تو ایک شخص جو اس عورت کو بڑے غور سے دیکھ بھی رہا تھا اور سن بھی رہا تھا جب اس سے نہ رہا گیا تو اس نے دوران طواف اس عورت سے پوچھا کہ وہ یہ جملہ بار بار کیوں دھرارہی ہے تو اس نے کہا کہ طواف مکمل ہونے کے بعد بات کرتے ہیں یوں جب طواف مکمل ہوا تو اس عورت نے اس شخص سے کہا کہ اصل میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ میرے تین بیٹے تھے جس میں دو بیٹے پانچ اور چھ سال کے تھے جبکہ تیسرا بیٹا ابھی زمین پر رینگنے والا تھا ایک دفعہ میں نے تندور جلانے کے لیئے لکڑیاں جلائی اور نماز میں مصروف ہوگئی جب میں سلام پھیرنے والی ہی تھی تو مجھے دوسرے کمرے سے بچوں کے شور کی آواز آئی میں نے سلام پھیرا اور دوسرے کمرے میں گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ درمیانہ بیٹا زمین پر خون میں لت پت پڑا ہے اور بڑا بیٹا غائب ہے کیونکہ کچھ دن قبل میرے شوہر نے قربانی کے لیئے ایک بکرا ذبح کیا تھا بس دونوں کھیلتے کھیلتے یہ کام کرگئے اور بڑے والے نے مذاق مذاق میں اس کے گلے پر چھُری پھیر دی اس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ چھری تیز ہوگی اور گلہ کٹ جائے گا اور اس طرح درمیانہ بیٹا دنیا سے رخصت ہوگیا پھر میں نے مرے ہوئے بیٹے کو چارپائی پر لٹایا اور بڑے بیٹے کو آواز دی جو ڈر کے مارے چھپ گیا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس عورت نے کہا کہ جب اس نے میری آواز کا جواب نہ دیا تو میں یہاں وہاں اسے تلاش کرنے لگی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہ جہاں چھپ کر بیٹھا تھا وہاں ایک سانپ تھا جو اسے ڈس کر جاچکا تھا یوں وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگیا پھر اس کی لاش بھی چارپائی پر ڈالی تو اچانک مجھے سب سے چھوٹے بیٹے کی یاد آئی تو میں بھاگی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہ رینگتے رینگتے جلے ہوئے تندور کی طرف گیا اور اس میں گرگیا اور وہ دنیا سے جا چکا تھا لہذہ اس تیسرے بیٹے کی لاش بھی چارپائی پر رکھی تینوں کو غسل دیا کفن پہنایا اور عمرے کا ارادہ کرکے یہاں آگئی کیونکہ اب میرے پاس کوئی نہیں ہے کوئی سہارا نہیں سوائے رب تعالی کے یہ اس کی منشاء تھی اس کی حکمت تھی اس لیئے میں کہتی جاتی ہوں کہ " یااللہ میں اس حالت میں بھی راضی ہوں " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہوتی ہے آزمائش اور یہ ہوتا ہے اس پر صبر کرنے کا ایک انوکھا اور منفرد انداز جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی بس میرا اس تحریر اور ان واقعات کے ذریعے یہ ہی مقصد آپ تک پہنچانا تھا کہ ازمائش کم و بیش ہر انسان پر آتی ہے اور وہ کسی بھی شکل میں آسکتی ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو جان میں مال میں اولاد میں کاروبار میں کسی بھی طرح آپ پر آزمائش ڈال سکتا ہے لیکن ہر آنے والی آزمائش پر صبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزاریئے صرف اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے پھر دیکھیں اللہ رب العزت اس صبر پر اپنے انعامات کی بارش کس طرح برستا ہے ہم پر اور اگر ہم نے اپنی زباں پر شکوے شکایت شروع کر دیئے اور اس رب کی نافرمانی کرنا شروع کردی تو جان لیجیئے کہ اس رب تعالی کا عذاب بڑا سخت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں آخر میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ہر آنے والی آزمائشوں میں سرخرو فرمائے ہمیں صرف اپنے اور اپنے حبیب کریمﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اپنی نافرمانی کرنے سے بچائے نافرمانی کے سبب آنے والے عذابات سے محفوظ رکھے مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہمیں پڑھنے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے مجھے اپنی دعائوں میں ہمیشہ یاد رکھیئے گا امین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 183 Articles with 166660 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.