امتِ مسلمہ اس وقت جن مشکلات، شکست و ریخت اور باہمی
اختلافات کا شکار ہے، اس کی وجوہات میں ایک اہم عنصر ایسا پراپیگنڈہ ہے جو
مسلمانوں کو شعوری یا غیر شعوری طور پر مایوسی، بے عملی اور مرعوبیت کی طرف
دھکیلتا ہے۔ اس منظم ذہن سازی میں مذہبی روایات، احادیث اور یہودی مذہبی
حوالہ جات کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمان دشمن کی طاقت کو
ناقابلِ شکست سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنے کردار، ذمہ داری اور جدوجہد سے
کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم ان تمام روایات، احادیث اور یہودی عقائد کا تحقیقی جائزہ
لیں گے جنہیں بنیاد بنا کر مسلمانوں میں مایوسی پیدا کی جاتی ہے اور پھر یہ
واضح کریں گے کہ دینِ اسلام اور تاریخِ امت کا اصل پیغام کیا ہے۔
حدیثِ جابر بن عبداللہؓ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں سے قتال نہ کریں گے،
یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپیں گے اور درخت اور پتھر کہیں
گے: 'اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آؤ اسے
قتل کرو۔' سوائے 'غرقد' درخت کے کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الفتن، حدیث: 2922)
یہ حدیث مسلمانوں کو مستقبل کی ایک پیش گوئی کے طور پر بتاتی ہے کہ ظلم کے
خلاف آخری معرکہ برپا ہوگا، لیکن اس میں مسلمانوں کو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر
بیٹھنے کا حکم نہیں بلکہ مسلسل جدوجہد اور باطل کے خلاف کھڑا ہونے کی تیاری
کی طرف اشارہ ہے۔
سنن ابوداؤد کی روایت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مہدی میری امت میں سے ہوں گے... وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے
جیسے یہ ظلم اور جَور سے بھری ہوگی۔"
(سنن ابوداؤد، کتاب المہدی، حدیث: 4282)
"عیسیٰ ابن مریمؑ نازل ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے
اور جزیہ ختم کر دیں گے..."
(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، حدیث: 3448)
ان روایات کا مقصد امت کو امید دینا اور یہ باور کرانا ہے کہ ظلم و فساد کا
خاتمہ یقینی ہے، مگر یہ کہنا کہ اس سے پہلے کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں،
سراسر دین کی غلط تعبیر ہے۔
قرآن میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو امید، صبر، اور جدوجہد کی تلقین کی
گئی ہے:
سورۃ الزمر (آیت: 53):
"کہہ دو: اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے! اللہ کی رحمت سے
مایوس نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہ معاف کر دیتا ہے، یقیناً وہ بڑا بخشنے
والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔"
سورۃ النساء (آیت: 75):
"اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں
اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی
سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی کارساز بنا
اور کوئی مددگار بنا۔"
یہودی مذہبی روایات اور عالمی منصوبہ بندی:
یہودیوں کی مذہبی کتابوں میں ایسے حوالہ جات موجود ہیں جو ان کے قومی عزائم
اور دنیا پر غلبے کے خواب کو ظاہر کرتے ہیں:
Genesis 15:18:
"اس دن خداوند نے ابرام سے عہد باندھا، کہ میں تیری نسل کو یہ زمین دوں گا،
دریائے مصر سے لے کر دریائے فرات تک۔"
یہ وہی نظریہ ہے جسے 'گریٹر اسرائیل' یا 'ارضِ موعود' کی صورت میں آج کے
یہودی حکمران اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔
۔ تلمود کی تعلیمات: Sanhedrin 98a:
"دنیا اسی وقت اپنے مقصد کو پہنچے گی جب ہمارا مسیح
(Messiah)
آئے گا اور بنی اسرائیل کو دنیا کی قیادت دے گا۔"
Talmud Baba Bathra 75a: "جب مسیح آئے گا تو تمام غیر قومیں بنی اسرائیل کی
خدمت کریں گی۔"
The Protocols of the Elders of Zion: اس میں بیان کردہ نکات — جیسے کہ
میڈیا پر کنٹرول، معیشت پر قبضہ، اقوام میں تفرقہ ڈالنا — آج کے حالات میں
عملی طور پر نظر آتے ہیں۔
مایوسی پیدا کرنے کا نفسیاتی اور فکری تجزیہ:
دشمن کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ان ہی کی مذہبی روایات کو توڑ مروڑ کر پیش
کر کے:
انہیں کمزور، مجبور اور بے بس باور کرایا جائے۔
دشمن کی طاقت کو ناقابلِ شکست ثابت کیا جائے۔
امام مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کی آمد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ اس سے
پہلے کی تمام جدوجہد بے سود نظر آئے۔
مسلمانوں کو تعلیم، معیشت، سیاست، دفاع اور میڈیا جیسے اہم شعبوں سے لاتعلق
رکھا جائے۔
یہ تکنیک صرف مذہبی پلیٹ فارم تک محدود نہیں بلکہ عالمی میڈیا، فلموں،
ڈراموں، اور تعلیمی نظام کے ذریعے مسلسل پھیلائی جا رہی ہے۔
اسلامی تاریخ میں عملی جدوجہد کی مثالیں:
اگر امتِ مسلمہ صرف مہدی یا عیسیٰ علیہما السلام کی آمد کا انتظار کرتی،
تو:
حضرت عمرؓ کے دور میں ایران و روم کی سلطنتیں نہ گرتیں۔
صلاح الدین ایوبیؒ بیت المقدس آزاد نہ کرواتے۔
سلطنت عثمانیہ پانچ صدیوں تک دنیا میں طاقتور ترین نہ رہتی۔
یہ تمام کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان ہر دور میں جدوجہد اور
تدبیر کے ذریعے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔
مذہبی روایات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنا، دشمن کی طاقت کو بڑھا
چڑھا کر بیان کرنا، اور مسلمانوں کو بے عملی کی تعلیم دینا، ایک سوچے سمجھے
منصوبے کا حصہ ہے جو یہودی فکری یلغار اور مسلم دنیا کے مخصوص طبقات کی
لاعلمی سے تقویت پاتا ہے۔
روایات کو مایوسی کا ذریعہ نہیں، بیداری اور عملی اقدام کا پیغام سمجھیں۔
امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کی آمد پر ایمان رکھیں، مگر اس سے پہلے اپنی
انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کو سمجھیں، ورنہ تاریخ ہمیں کمزور قوموں کی
صف میں دفن کر دے گی۔
پروپیگندہ اور سوشل میڈیا سے متاثر نہ ہوں ۔ اپنے حصے کا کام جہاد سمجھ کر
کریں ، ، منظم رہیں ، دوسروں کے لیے اسانیاں پیدا کریں وہ وقت آ چکا ہے جب
مایوسی اور غلط فہمیوں کی دھند چھٹنے والی ہے ۔
دنیا کے ایک بہادر ، نڈر، میدان کے فاتح اور عظیم حکمران
عمر بن خطاب کا قول یاد رکھیں
"میں اس قوم سے ڈرتا ہوں جو دشمن سے پہلے خود شکست کھا چکی ہو۔"
حضرت علیؓ کا فرمان عالیشان ہے:
"مایوسی سب سے بڑی کمزوری ، اور امید سب سے بڑی طاقت ہے"
|