بے روزگاری کے خاتمہ کی جانب ایک
اورقدم
وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے رولزآف بزنس کے تحت چارنئی وزارتیں تشکیل
دے دی ہیں جن میں قومی ورثہ،ڈیزاسٹرمینیجمنٹ،قومیقواعدوخدمات اورتحفظ خوراک
وتحقیق کی وزارتیں شامل ہیں اوران وزارتوں کوبالترتیب ثمینہ خالد گُھر کی،
اسراراللہ زہری اورمیرہزارخان بجارانی کے سپردبھی کردیاگیاہے، ان وزارتوں
کے نئے سیٹ اپ، ملازمین اوردیگراخراجات پر2ارب4کروڑ روپے کے اخراجات
کاتخمینہ لگایاگیا ہے جبکہ18ویں ترمیم سے قبل وفاق کے زیرانتظام قائم
وزارتوں، جوصوبوں کے حوالے کی جاچکی ہیں ،پر55ارب روپے کے اخراجات آرہے تھے
جو موجودہ حکومت کی فراست اوردانمشندانہ اصولی فیصلہ سے کم کرلئے گئے ہیں ،ان
وزارتوں کے مقام سے جہاں فارغ ہونے والے وفاقی ملازمین کوکھپایاجاسکے گا
وہاں ہی بڑھتی بے روزگاری اورغیریقینی اقتصادی صورتحال کے خاتمہ کے ساتھ
ساتھ معاشی صورتحال کو بھی استحکام ملے گا۔
ملکی تاریخ میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ بچت کے نام پروزارتوں اورسرکاری
ملازمین کی ڈائون سائزنگ ضرور کی جاتی رہی ہے مگر اس ڈائون سائزنگ کاہمیشہ
المناک پہلو یہ رہا ہے کہ فارغ ہونے والے ملازمین کو بے یارومددگارچھوڑاگیا
اورلاکھوں کنبے اقتصادی بدحالی کاشکار ہوکراپناوجود ہی کھوبیٹھے،وسائل کی
عدم دستیابی کے باعث جوہرقابل اورٹیلنٹ تعلیمی اداروں سے اٹھ کرچائیلڈ لیبر
پرمجبورہوگیا،گھر کی باپردہ خواتین ماسیاں بن کرگھروں میں کام کاج کرنے
لگیں اوراداروں کواپنی جوانی دے کربڑھاپے میں مفلسی کاشکار ہونے والے نکالے
گئے ملازمین سسکنے لگے مگر موجودہ جمہوری حکومت نے برسراقتدارآتے ہی نہ صرف
برسوں سے سابقہ حکومتوں کی طرف سے برطرف کئے جانے والے بیروزگار ملازمین
کوبحال کیا گیا، انہیں سابقہ واجبات سمیت موجودہ تنخواہ کی ادائیگی کی گئی
اور ان کے ٹھنڈے چولہے کودوبارہ گرم کیاگیا،جبری برطرفی کاشکارجوملازمین
دنیا سے رُوٹھ گئے تھے ان کے بچوں کوان کی جگہ پر بھرتی کیاگیا،
معاشی بدحالی کے ستم سہنے والے ملازمین کی دہلیز پر بیٹھی بچیوں کے بھی
موجودہ حکومت نے ہاتھ پیلے کئے ہیں ،وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کی طرف سے
بھی اعلان کردہ چارنئی وزارتوں کاقیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے
اورصوبوں کو منتقل ہونے والی وزارتوں کے فارغ ہونے والے ملازمین کوبھی اپنی
وزارتوں میں کھپایا جائے گا ،ان ملازمین کے تجربہ سے ملک وقوم کوفائدہ بھی
ہوگا۔
موجودہ حکومت نے مہنگائی کامقابلہ کرنے اورگھریلوخواتین کوپڑھا لکھا،
کاروباری اورہنرمندبنانے کیلئے شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کے ویژن
کے تحت تین سال قبل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی شروع کیاتھا جس سے ابھی
تک نہ صرف لاکھوں خواتین اور ان کے کنبوں کواپنے پائوں پرکھڑا کیاجاچکا ہے
بلکہ گزشتہ36ماہ کے دوران قوم کی بیٹیاں ہنرمند اورفعال شہری بن کرملک وقوم
کی ایک نئے عزم کے ساتھ خدمت کیلئے بھی تیارہوچکی ہیں ،ہنڈی کرافٹ
اورگھریلودستکاریوں کوبھی مہیمز ملی ہے، کمپیوٹر،انفارمیشن ٹیکنالوجی اوراس
سے متعلقہ علوم وفنون کوپروموٹ کرنے کی حکومتی کوششوں سے ہنرمندافرادی قوت
سے پاکستانیوں کی بھی بیرون ملک مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف
پاکستان کانام روشن ہوا ہے بلکہ زرمبادلہ کے ذرائع اوروسائل میں بھی قابل
رشک بڑھوتری دیکھنے میں آرہی ہے۔
ایک فلاحی ریاست میں منتخب اورجمہوری حکومت ہی عوام کے حقیقی تقاضوں
اورڈیمانڈ کی آئینہ دارہوتی ہے ۔اس وقت قوم کی حقیقی ڈیمانڈمعاشی استحکام
ہے، حکومت اس سلسلے میں کئی ایک منصوبوں پرعمل پیراہے ،توانائی بحران حل
کرنے کیلئے وزیراعظم کی ہدایت پر آئی پی یز کو10ارب روپے ادا کردیئے گئے
ہیں جس سے ملک میں95فیصد بجلی کی لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ
صدرمملکت آصف علی زرداری نے بھاشا دیا میرڈیم کاسنگ بنیاد رکھ دیا ہے جس کی
آئندہ چار سال کے دوران تکمیل کے بعد ملک کی بجلی کی ضروریات مزید60فیصد
پوری ہوجائیں گی ،اسی طرح منگلا ڈیم آپ ریزنگ پربھی کام ہورہا ہے جس سے
منگلا کی پیداواری صلاحیت بھی دگنی ہوجائے گی۔
ملک اورقوموں کی زندگی میں بڑے بڑے نازک مراحل آتے ہیں، ملکوں کی زندگی
میں64سال کوئی بڑی مدت نہیں ہوتی اورپھر64سال میں سے40سال فوجی حکمرانوں کی
غیرمقبول اور غیرجمہوری حکومتوں کے نذر ہوگئے، ترقی کاپہیہ رکا رہا اور اب
پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں جہاں عالمی سطح پر پاکستان
کاوقار اورحرمت میں اضافہ ہوا وہاں ہی ملک میں سرمایہ کاری، ترقی اور
خوشحالی میں بھی بڑھاوا ہواہے، درآمدات کی جگہ برآمدات نے لے لی ہے، عالمی
حالات کے باعث حکومت کوکچھ غیرمقبول فیصلے بھی مجبوراً کرناپڑے ہیں مگر
ایسی کڑوی گولیاں قوم سے مزیدمحنت کامطالبہ کرتی ہیں ،موجودہ ترقی یافتہ
قوموں کے ماضی کوکھنگالاجائے تو امریکی قوم پہلی جنگ عظم سے پہلے تاریخ
جاریہ میں ڈھونڈناپڑتی تھی، جاپان کی جفاکش قوم نے دوامریکی ایٹم بموں سے
ملنے والے زخموں کوناسورنہیں بننے دیا بلکہ تاریخ عالم کے ریکارڈ پر ہے کہ
اس قوم نے38سالوں کے دوران کسی کے جینے مرنے ، کسی مذہبی سیاسی یاثقافتی
تہوار پرچھٹی نہیں کی بلکہ24گھنٹے کام کرکے جاپان کو عالمی اقتصادی سپرپاور
میں بدل دیا ہے۔
امید کی جانی چاہئے کہ وفاق میں چاروزارتوں کے قیام سے خزانے پرمزید یہ
بوجھ بڑھنے کے بجائے متعدد وزارتوں کی صوبوں کومنتقلی سے ہونے والی بچت
کامحض دو فیصد اخراجات سے بیروزگاری، غربت اورروزگار کے نئے مواقع اور
ملازمتوں کی پیدائش سے کئی ایک مسائل حل ہوسکتے ہیں تو اسے پیپلزپارٹی
حکومت کاایک مستحسن فیصلہ قراردیاجائے توبے جانہ ہوگا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
حکومت کے خلاف بیان بازی پرزندہ رہنے والوں کی واحد سیاسی لائف لائن ہی
ہرحکومتی اقدام کومنفی زاویہ دینے میں مضمر ہوتی ہے، مگر اہل پاکستان
باشعور ہیں اوروہ پیتل اورسونے میں امتیاز کی صلاحیت سے آشنا ہیں اور اب
انہیں کوئی طالع آزماگمراہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، اوریہی ملت
پاکستان کامآل بھی ہے۔
تصویرکادوسرا رخ… پاکستانی زندگی سے پیچھا چھڑانے پرمجبور(حکمرانوں کے لئے
لمحہ فکریہ)
ملک میں بڑھتے توانائی بحران، اس سے پیداہونے والی معاشی واقتصادی گھمبیر
صورتحال اورسکڑتے ملازمت اورکاروبار کے مواقع نے پاکستانیوں سے جینے کی
آرزو اورامنگ بھی چھین لی ہے جس کی واضح مثال پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ایک
شخص کی خود سوزی ہے، یہی نہیں ملک کے گوشے گوشے سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ
مائیں بچوں سمیت دریا میں کود رہی ہیں والدین خود بچوں کوقتل کرکے خودکشیاں
کررہے ہیں اب بدحالی کاشکار ریلوے بحران کاجادو بھی سرچڑھ کربول رہا
ہے،ریلوے کے معمرپنشنرز ملک کے تمام شہروں میں اپنی زندگی کورواں دواں
رکھنے والی پنشن کی وصولی کیلئے خوار ہورہے ہیں اورحکومتی بے حسی سے گزشتہ
روز لاہور میں ایک معمرپنشنر جاں بحق اورمتعدد بے ہوش بھی ہوگئے۔ مہنگائی
بے روزگاری ،لوڈشیڈنگ،ڈرون حملوں، امن وامان کی خراب صورتحال اوراب
امیدوبیم کے درمیان لٹکے پاکستانیوں کی ٹوٹتی آس انہیں زندہ درگورکررہی ہے۔
اس کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن کے جاری اعدادوشمار کے مطابق
ڈیڑھ ہزار سے زائد پاکستانیوں نے گزشتہ دس ماہ کے دوران خودکشیاں کی ہیں،
اس عبرتناک اورحسرتناک صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صورتحال میں
ٹھہرائویا بہتری کے آثار دور دور تک نظرنہیں آرہے بلکہ پاکستان ریلوے، پی
آئی اے، واپڈا اورسٹیل ملز جیسے قومی ادارے بھی اپنی تباہی کی انتہائوں
کوچھورہے ہیں ،عام آدمی کی دسترس میں نقل و حرکت یا نقل و حمل کاسفررہا ہے
نہ جینے کا سفر، لوٹ مار کاایک طوفان جاری ہے، امیر امیرتر اورغریب،مفلس
بلکہ قلاش ہوکرزندگی سے پیچھا چھڑارہا ہے، حکومتی بے حسی سے جنم لینے والے
یہ المیے پاکستان کوکس جانب لے جارہے ہیں اور پاکستان کامستقبل کیا ہے…؟ اس
کے بارے میں کوئی محب وطن پاکستانی کوئی پیشگوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں
ہے،لے دے کرصرف دعائیں رہ جاتی ہیں جوہر پاکستانی ملکی صورتحال کی بہتری
کیلئے کررہا ہے۔ |