دواموات: نصرت بھٹواورراجہ خان

بے شک زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ وہ جب تک چاہتا ہے کسی جاندار کو زندہ رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے موت سے ہمکنار کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں کہ وہ کسی انسان کو کیسی زندگی دیتا ہے اور کیسی موت، ایک محدود دائرے میں بے شک انسان کو آزادی ہے، تبھی تو جنت اور جہنم کا تصور ہے، تبھی تو گناہ اور ثواب کا تصور ہے۔ سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ مسز نصرت بھٹو نے اپنی زندگی میں بہت سے مصائب جھیلے ، ان کی زندگی میں ان کے شوہر کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، ان کے دو جوان بیٹے مار دئے گئے اور ان کی بیٹی کو بھی دن دیہاڑے قتل کردیا گیا۔ پچھلے کچھ سالوں سے وہ ”کوما“ میں تھیں اور بیاسی سال کی عمر پاکر اس دار فانی سے رخصت ہوگئیں۔ نصرف بھٹو کو بعد از مرگ ”مادر جمہوریت“ کا خطاب دیدیا گیا جس کی تجویز ”مولانا“ بابر اعوان نے دی تھی۔ ان کی موت کی اطلاع ان کی بہو غنویٰ بھٹو اور ان کی پوتی فاطمہ بھٹو کو نہیں دی گئی، ان کا جنازہ بھی -70 کلفٹن نہیں لایا گیا بلکہ دبئی سے سیدھا سکھر اور پھر ان کے آبائی قبرستان پہنچا دیا گیا جہاں انہیں ذوالفقار علی بھٹو کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ غنویٰ بھٹو اور فاطمہ بھٹو نے بعد میں ممتاز بھٹو کے ہمراہ قبر پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ نصرت بھٹو کی موت پر پیپلز پارٹی نے چالیس روزہ سوگ اور دس دن کے لئے تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ ان کے جنازے والے دن پورے ملک میں عام تعطیل کردی گئی۔ نصرت بھٹو کی موت طبعی موت تھی، یہ علیحدہ بات ہے کہ ممتاز بھٹو نے ان کے قتل کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے لیکن ہم مان لیتے ہیں کہ ان کی موت طبعی تھی، وہ اپنا وقت پورا کرکے اس دنیا سے چلی گئیں لیکن اس میں پاکستان کا کیا قصور تھا، پورے پاکستان میں عام تعطیل کیوں کردی گئی، پاکستان کی معیشت کو کروڑوں روپے کا نقصان کیوں پہنچا دیا گیا، وہ معیشت جو پہلے ہی تنزلی کا شکار ہے، جو پہلے ہی دم توڑ رہی ہے، جو کرپشن کے دیمک کی وجہ سے اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اسے موت کی جانب ایک اور دھکا دیدیا گیا۔

نصرت بھٹو کی موت کے روز ہی ایک اور بھی موت ہوئی لیکن وہ نہ تو ٹی وی چینلز پر کچھ زیادہ اہمیت اور وقت حاصل کرسکی نہ ہی اخبارات میں، وہ موت ایک بے روزگار نوجوان کی تھی اور اس کا تعلق بھی اسی سندھ سے تھاجہاں سے صدر زرداری کا تعلق ہے۔ راجہ خان نامی ایک عام آدمی جس کا تعلق نوشہرو فیروز سے تھا اس نے پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے خود کو آگ لگا کر خود سوزی کرلی۔ اس کی جیب سے ملنے والے خط کے میں حکومت سے اسے اسلام آباد میں دفن کرنے اور اس کے بچوں کی کفالت کی استدعا کی گئی ہے ۔وہ موت صرف ایک بے روزگار کی موت نہیں تھی بلکہ وہ دوبچوں کا باپ تھا جو انہیں زندگی کی خوشیاں دینا چاہتا تھا، وہ نوجوان بوڑھے والدین کا سہارا بننا چاہتا تھا، وہ پارلیمنٹ لاجز میں کسی وزیر، مشیر یا رکن پارلیمنٹ کی توجہ چاہتا ہے، وہ کسی سے ملاقات کا آرزو مند تھا کہ شائد اربوں روپے ڈکارنے والوں کو اس پر ترس آجائے، اسے کوئی نوکری بھیک میں دے دی جائے، وہ سندھ کے کسی وڈیرے اور جاگیردار رکن اسمبلی کی نظر عنایت کا منتظر تھا لیکن نہ تو وہ کسی سے مل سکا اور نہ ہی اس کی کہیں شنوائی ہوئی، وہ دو دن تک آس اور امید سے وہاں دھرنا دئے بیٹھا رہا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ حکومتوں کے پاس اس جیسے لوگوں کے لئے وقت بالکل نہیں، حکومت کے پاس ایسے لوگوں کے لئے وقت ہو بھی کیوں؟ حکومتوں کے اپنے معاملات ہوتے ہیں، وزیر اعظم سمیت تمام وزیر اور مشیر اتنے فارغ تھوڑے ہی ہوتے ہیں کہ ایک عام پاکستانی کی بات سن سکیں، وہ پاکستانی جو اکیلا بھی تھا اور پتہ نہیں اس کا ووٹ بھی تھا کہ نہیں، معلوم نہیں اس نے دو دن کھانا بھی کھایا تھا کہ نہیں، ایسے بھوکے ننگے لوگوں کے لئے کس کے پاس وقت ہوتا ہے؟ اس ”راجہ خان“ کو سوچنا چاہئے تھا کہ وزیر اعظم کو کسی ”معصوم“ اور ”بے گناہ “ کے گھر اس کی رہائی کی خوشی میں بھی جانا ہوتا ہے، صدر صاحب کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی ساری اولاد باہر ہے اور جائیداد بھی، وزیروں مشیروں کو دیہاڑی بھی لگانا پڑتی ہے اور اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملوں کا ان کی زبان میں جواب بھی دینا ہوتا ہے، ویسے بھی اس نے خود سوزی کے لئے وہ وقت کیوں چنا جب پورا ملک نصرت بھٹو کے سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔

راجہ خان کی خود سوزی اس نظام اور اس کے کل پرزوں کی فتح ہے اور یہاں کے بے حس عوام کے منہ پر ایک بھرپور تمانچہ بھی۔ وہ عوام جو انتہائی کسمپرسی میں زندگیاں گذار رہے ہیں لیکن چپ کے تالے ایسے لگے ہوئے ہیں کہ ”اف“ تک نہیں کرتے۔ عوام کو جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ گھوم گھما کر وہی پرانے چہرے، وہی بدقماش ارکان پارلیمنٹ اور وہی پالیسیاں، اس وقت تک حالات کیسے ٹھیک ہوں گے جب تک اس ملک کے عوام اپنا فرض پورا نہیں کریں گے۔ اگر اسی نظام میں رہنا بھی ہے تو خدارا اس کے اصولوں کو ہی سمجھ لینا چاہئے کہ ”بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے“اس جمہوریت کا اصول ہے، عوام بے شک غریب ہوں، پڑھے لکھے نہ ہوں لیکن آج کے دور میں جبکہ گھر گھر میں کیبل کی سہولت سے میڈیا کے ذریعہ انہیں تمام حالات سے آگاہی مل رہی ہوتی ہے، پھر بھی ووٹ ڈالتے وقت اپنی برادری، دھڑے اور ان لوگوں کو ووٹ دئے جاتے ہیں جو ”سکہ بند “ چور، ڈاکو اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ بات ہورہی تھی موت کی، ایک موت نصرت بھٹو کی ہوئی جس کے سوگ میں پورے ملک کو چھٹی کردی گئی اور ایک موت بیچارے راجہ خان کی ہوئی جس کا کوئی زندگی میں پرسان حال تھا اور نہ موت کے بعد ہوگا۔ نصرت بھٹو کی موت کا دن اب پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے جو ہرسال بڑی عقیدت اور احترام سے منایا جایا گا جبکہ راجہ خان کسی کو ایک ہفتہ بعد بھی یاد نہیں ہوگا۔

موت ایک حقیقت ہے، راجہ خان بھی اس کا شکار ہوگیا اور نصرت بھٹو بھی، کل کو صدر ، وزیر اعظم، وزرائ، مشیران، ارکان پارلیمنٹ، اپوزیشن لیڈر اور عام آدمیوں نے یقیناً مر جانا ہے، شائد دوبارہ بھی کسی کی موت پر چھٹیاں کردی جائیں، خطابات دیدئےے جائیں لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ موت کے بعد جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو کیا جواب دیں گے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی ذات روز قیامت زرداریوں اور گیلانیوں سے راجہ خان اور دوسرے بھوکے پیاسے لوگوں کے متعلق سوال نہیں کرے گی؟ کیا ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم خود تو حکومتوں کے مزے بھی لوٹتے رہے اور عیاشی بھی کرتے رہے لیکن تمہارے ”سنہری“ دور میں جو لوگ خودکشیوں اور خود سوزیوں پر مجبور ہوئے، جو ڈرون حملوں میں مارے گئے، جو بھوک اور پیاس سے بلکتے رہے ان کا خون ناحق بھی تمہارے ہی ہاتھوں پر ہے اس لئے اب صرف اور صرف ”سزا“ ہے اور اس ”سزا“ کو بھی کوئی موت نہیں کہ یہ سزا اب ابدالابآد اور ہمیشہ کے لئے ہے۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207412 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.