نامِ الٰہی کی لامتناہی شفقت

”اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے“، یہ کلمات ہر مسلمان کی زبان پر وہ روشنی ہیں جو اس کی زندگی کے اندھیروں کو چیر کر ایک نئی صبح کا پیغام لاتی ہے۔ یہ ابتدائی دعا اور کلمہ ایک ایسی عظیم حقیقت کا اظہار ہے جو کائنات کی ہر شے میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت کی دو صفتیں، یعنی رحمان اور رحیم، نہ صرف اس کی محبت کے دو پہلو ہیں بلکہ وہ قوت بھی ہیں جو مخلوق کی ہر ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔ رحمان کا مفہوم ہے وہ جو اپنی مخلوق پر بلا تخصیص رحمت نازل کرتا ہے، چاہے وہ نیک ہو یا بد، مومن ہو یا کافر، انسان ہو یا جانور۔ اس کی رحمت ایک وسیع سمندر کی مانند ہے جو ہر طرف پھیلا ہوا ہے، اور اس کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں۔ وہ ہر لحظہ، ہر پل، ہر سانس کے ساتھ زمین و آسمان پر اپنی رحمت کے بادل برسائے جاتا ہے۔ یہ رحمت وہ بنیاد ہے جس پر زندگی کے تمام رنگ کھِلتے ہیں۔ اگر یہ رحمت نہ ہوتی تو کائنات کا وجود بھی ممکن نہ تھا۔ دوسری طرف، رحیم کا مفہوم ہے وہ ذات جو اپنی خاص مخلوق یعنی مومنوں پر خاص کر کے رحم فرماتی ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو توبہ کرنے والوں، خطاکاروں، اور کمزوروں کے لیے خاص طور پر نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت ایک ایسا سہارا ہے جو انسان کو اس کی گناہوں کی کمزوریوں سے نکال کر نیکی کے راستے پر لے آتی ہے۔ یہ رحمت دلوں کو نرم کرتی ہے، شکستہ دلوں کو جوڑتی ہے، اور زندگی کی تلخیوں میں مٹھاس گھولتی ہے۔ یعنی رحمانیت ایک عمومی رحمت ہے جو ہر ایک پر ایک جیسی بہتی ہے، لیکن رحیمیت وہ خاص رحمت ہے جو مومنوں کے دلوں کو فتح کرتی ہے، ان کی روحوں کو سکون دیتی ہے، اور انہیں آخرت کی کامیابی کی نوید سناتی ہے۔ یہی فرق ہمیں سمجھاتا ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے صرف اللہ کو جاننا کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا اور اس کی رحمت کی خاص چھاؤں میں آنا ضروری ہے۔
یہ وہ ابتدائی الفاظ ہیں جو ہر عمل کو برکت اور طہارت عطا کرتے ہیں۔ یہ الفاظ زبان پر آتے ہی دل کی گہرائیوں میں سکون اور اعتماد کی لہر دوڑا دیتے ہیں، جیسے کوئی کمزور ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا جائے۔ انسانی زندگی کی پیچیدگیاں، خواہ کتنی ہی الجھی ہوئی کیوں نہ ہوں، جب اللہ کے ان دو صفاتی ناموں سے آغاز ہو، تو ان میں ایک لطافت اور معنویت کا رنگ بھر جاتا ہے۔ رحمان اور رحیم کی صفتیں محض الفاظ نہیں بلکہ وہ انمول خزانہ ہیں جو مخلوق کو خالق سے جوڑتے ہیں، اسے امید، ہمت اور روشنی عطا کرتے ہیں۔ یہ کلمات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی میں آنے والی ہر مشکل، ہر آزمائش اور ہر امتحان میں کوئی ذات ایسی ہے جو ہمیشہ معاف کرنے والی، رحم فرمانے والی اور ہمارے حال سے واقف ہے۔ انسان جب اپنے دامن کو گناہوں سے آلودہ پاتا ہے، تو یہی دو صفات اسے پھر سے اس رب کی آغوش میں لے آتی ہیں جس کے دَر پر توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔ اس میں نہ صرف دلی سکون ہے بلکہ نفسیاتی اطمینان بھی ہے۔ دل کو قرار آ جاتا ہے کہ جب سب راستے بند ہو جائیں، تب بھی ایک راستہ کھلا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ یہ الفاظ ہمیں نفسیاتی اعتبار سے بھی ایک گہرای سکھا دیتے ہیں۔ جب انسان خود کو کمزور، شکستہ یا بے یار و مددگار محسوس کرتا ہے، تو اللہ کے نام سے آغاز کرنا اس کی روح میں امید کی کرن پیدا کرتا ہے۔ یہ کلمات ایک دعا کی مانند ہیں جو اندرونی اضطراب کو کم کرتے ہیں اور انسان کو ایک مضبوطی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ہر پہلو اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہی ہمیں کامیابی، سکون اور اطمینان عطا کر سکتا ہے۔
ان دونوں صفات کا ذکر، یعنی رحمانیت اور رحیمیت، ہمیں اللہ کی وہ شانِ کاملہ بتاتا ہے جس میں اُس کا ہر فیصلہ عدل کے ساتھ ساتھ محبت سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ بندے کو اس کی کمزوریوں سمیت قبول کرتا ہے، اس کے آنسوؤں کو اپنی رحمت کے سمندر میں سمیٹ لیتا ہے، اور اس کی تھوڑی سی کوشش کو اپنے فضل سے بے پایاں کر دیتا ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو انسان کو مایوسی سے نکال کر امید کی روشنی میں لے آتا ہے۔ جب انسان اس مقدس نام کو اپنی زبان پر لاتا ہے، تو اس کا دل ایک خاص قسم کی خشیت اور محبت میں ڈوب جاتا ہے۔ اس لمحے وہ جان لیتا ہے کہ اس کی ہر سانس، ہر لمحہ، ہر دعا، اور ہر کوشش اسی ربِ رحمان و رحیم کی عطا ہے۔ اس کی محبت کا دریا اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی پیاسا اس میں سیراب ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کی رحمت کا آسمان اتنا کشادہ ہے کہ اس کے سائے تلے سب کو پناہ ملتی ہے۔ اسی لیے زندگی کے ہر کام کا آغاز "بسم اللہ الرحمن الرحیم" سے کیا جاتا ہے، تاکہ اس کام میں اللہ کی رحمت شامل ہو، اور وہ کام برکت، کامیابی اور سکون کا باعث بنے۔ یہ نہ صرف ایک دینی حکم ہے بلکہ ایک عمیق نفسیاتی حکمت بھی ہے، کیونکہ جب ہم اللہ کے نام سے آغاز کرتے ہیں تو ہم اپنی تمام کمزوریوں اور مشکلات کو اُس کی ذات کے سپرد کر دیتے ہیں، اور اپنے دل کو سکون دیتے ہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
ان صفات کی یاد انسان کو اس کی ذاتی زندگی میں بھی گہرے اثرات دیتی ہے۔ چاہے وہ رشتہ داریوں میں ہو، معاشرتی تعلقات میں، یا اپنے نفس کی تربیت میں، اللہ کی رحمت کی یقین دہانی انسان کو نرمی، ہمدردی، اور تحمل سکھاتی ہے۔ یہ نام ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ جیسے اللہ ہر حال میں رحم کرنے والا ہے، ہمیں بھی اپنے اطراف کے لوگوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ لہٰذا، اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے، یہ محض ایک ابتدائی دعا نہیں، بلکہ ایک جامع فلسفہ ہے جو زندگی کو محبت، امید اور سکون سے بھر دیتا ہے۔ اس نام کی برکت کے بغیر انسان کا وجود ادھورا ہے، اور اس کے ساتھ ہر لمحہ زندگی میں ایک خاص روشنی اور لطف شامل ہو جاتا ہے جو ہمیں خدا کی بے پایاں رحمت کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
یہ نام انسان کو بندگی کا حقیقی ذائقہ چکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اللہ کے سامنے جھکنے والا کبھی ذلیل نہیں ہوتا۔ وہ ہر دروازے سے محروم ہو سکتا ہے، مگر جب اللہ کے نام سے آغاز کرتا ہے، تو اسے ایک ایسی پناہ مل جاتی ہے جو ہمیشہ کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہی نام اس کی صبحوں کو نور بخشتا ہے، اس کی راتوں کو امن اور چین عطا کرتا ہے، اور اس کی تنہائیوں کو مجمع بنا دیتا ہے۔ یہی وہ سچ ہے جو انسان کو اپنی اوقات اور اللہ کی عظمت کے فرق کو سمجھاتا ہے۔ انسان کی عاجزی اور اللہ کی مہربانی کا فرق ہی اصل بندگی ہے۔ اور جب کوئی انسان اس فرق کو محسوس کرتا ہے، تو اس کا سر عاجزی سے جھک جاتا ہے، اور اس کے ہونٹوں سے بے اختیار یہی الفاظ نکلتے ہیں: ”اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔“

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 40 Articles with 14520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.