جی ایچ ایف کی امدادی سرگرمیاں اور متاثرین پر حملے

جی ایچ ایف کی امدادی سرگرمیاں اور متاثرین پر حملے

از: خورشید عالم داؤد قاسمی

غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن تنقید کی زد:
غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف)، جو ایک امریکی حمایت یافتہ فلاحی ادارہ ہے، حالیہ دنوں شدید تنقید کی زد میں ہے۔ متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر الزام لگایا ہے کہ وہ امدادی سامان کی تقسیم کے نام پر، اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ معاونت کر رہی ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ جی ایچ ایف کا موجودہ طریقہ کار جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور بعض صورتوں میں نسل کشی جیسے سنگین نتائج کا موجب بن رہا ہے۔ اسی بنا پر ان اداروں نے جی ایچ ایف سے اپنی سرگرمیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے بھی اس فاؤنڈیشن کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا ہے۔

شکوک و شبہات کی وجوہات:
غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے حوالے سے متعدد شکوک و شبہات ہیں، جن کی بنیاد زمینی حقائق، تنظیم کے طریقِ کار اور سیاسی پس منظر پر ہے۔ اس فاؤنڈیشن کی غیر شفاف فنڈنگ اور متنازع سیاسی وابستگی ہے۔ اسے مالی معاونت براہِ راست یا بالواسطہ طور پر امریکہ اور اسرائیل کے حامی اداروں سے فراہم کی جاتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم انسانی ہمدردی کے بنیادی اصولوں سے انحراف کررہی ہےاوربعض سیاسی مقاصد کو تقویت فراہم کر رہی ہے۔

تنظیم کے طریقۂ کار پر بھی اعتراضات ہوتے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت قائم امدادی نظام، خاص طور پر "انروا"، کو نظرانداز کرکے، جی ایچ ایف نے غزہ میں ایک علاحدہ امدادی نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ یہ طرزِ عمل بین الاقوامی امدادی ضوابط، خاص طور پر غیر جانب داری، شفافیت اور مقامی ہم آہنگی جیسے بنیادی اصولوں کے منافی سمجھا جا رہا ہے۔ مزید برآں، جی ایچ ایف کی جانب سے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے امریکی نجی سیکیورٹی اور لاجسٹکس کمپنیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں بعض کمپنیاں (جیسے: بلیک واٹر) ماضی میں جنگی تنازعات اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث رہی ہیں۔ اس عمل سے یہ تاثر مزید مضبوط ہو رہا ہے کہ فاؤنڈیشن کی سرگرمیاں محض فلاحی نہیں؛ بلکہ عسکری و انٹیلی جنس مقاصد سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔

مقامی سطح پر بھی اس فاؤنڈیشن کو قبولیت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ غزہ میں کام کرنے والی کئی مقامی این جی اوز اور سماجی تنظیمیں جی ایچ ایف کے ساتھ تعاون سے اجتناب کر رہی ہیں۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ انھیں اس کے عزائم اور نیت پر گہرے تحفظات ہیں۔ فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد اس ادارے کو مشتبہ اور بیرونی ایجنڈے کا حامل سمجھتی ہے۔ نہایت تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن، امریکہ اور اسرائیل کی حمایت و معاونت سے امدادی سامان تقسیم کر رہی ہے۔ اس کے باوجود وہ ضرورتمند اور مجبور افراد جو محض اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے امدادی مراکز کا رخ کرتے ہیں، انھیں مختصر سے امدادی سامان کے لیےاسرائیلی افواج کے حملوں کا نشانہ بن کر، جان سے ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ اور عالمی ضمیر پر سوالیہ نشان:
اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق، صرف چھ ہفتوں کے قلیل عرصے، یعنی 27/ مئی 2025 سے 7 /جولائی 2025 کے دوران، غزہ کی پٹی میں امدادی مراکز اور امداد لے جانے والے قافلوں کے قریب ہونے والے حملوں میں، کم از کم 798 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان ہلاکتوں کا مقام کوئی عسکری محاذ نہیں تھا؛ بلکہ وہ مقامات تھے جہاں بظاہر انسانیت کو زندگی کی رمق فراہم کی جا رہی تھی اور ضرورت مندوں کو سہارا دینے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، ان شہادتوں میں سے 615 افراد جی ایچ ایف کے امدادی مراکز کے آس پاس ہونے والے حملوں میں جان کی بازی ہار گئے؛ جب کہ 183 افراد مختلف امدادی قافلوں کے راستوں میں پیش آنے والے حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار عالمی ضمیر کے لیے ایک تلخ سوالیہ نشان ہیں۔ ایسی جگہیں، جہاں تحفظ اور امید کی فضا ہونی چاہیے تھی، موت کا میدان بن چکی ہیں۔

بین الاقوامی قانون کی پامالی:
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی ترجمان روینہ شمداسانی نے حال ہی میں بتایا ہے کہ وسطی علاقے دیر البلح میں اقوام متحدہ کے شراکت دار امدادی ادارے "پراجیکٹ ہوپ" کے مرکز پر، امداد کے لیے جمع ہونے والے افراد پر فائرنگ کے نتیجے میں پندرہ افراد ہلاک ہو گئے، جن میں نو بچے بھی شامل تھے۔ ترجمان نے اس واقعے کو جنگ کے دوران بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ میں بین الاقوامی انسانی قوانین کے اصولوں کی پاسداری کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ ہزاروں فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی نمایاں تعداد شامل ہے۔ خاص طور پر خوراک کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے مارے جانے والے بیشتر افراد کو فائرنگ کے زخم آئے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ عام شہریوں کی حفاظت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا بیان اور انسانی المیہ:
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان کرسچین لنڈمیئر نے کہا ہے کہ امدادی مراکز پر موجود افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں خواتین، بچے، مرد، لڑکے اور لڑکیاں امدادی مراکز، پناہ گاہوں، راستوں اور طبی اداروں میں شہید ہو چکے ہیں اور یہ قتل عام آج بھی جاری ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ، جو برسوں سے جنگ، ناکہ بندی اور انسانی بحرانوں کے عذاب میں مبتلا ہے، وہاں امدادی سامان وصول کرنے والے عام شہریوں کی شہادت عالمی ضمیر کے لیے ایک سخت آزمائش اور دردناک چیلنج بن چکی ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی کی علامت ہے؛ بلکہ عالمی برادری کی ذمہ داریوں اور اخلاقی قدروں پر بھی سوالات اٹھاتی ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 /اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں، اب تک شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار 531 ہو چکی ہے؛ جب کہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 34 ہزار 592 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ المیہ صرف ایک خطے کا سانحہ نہیں؛ بلکہ انسانیت کے اجتماعی شعور اور عالمی نظامِ عدل کا امتحان ہے۔

غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کا مؤقف:
غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے اقوامِ متحدہ کی مذکورہ بالا رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے، اسے "سیاسی، غلط اور گمراہ کن" قرار دیا ہے۔ فاؤنڈیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے امدادی مراکز پر کسی مہلک واقعے کی کوئی مستند تصدیق نہیں ہوئی ہےاور نہ ہی ان حملوں میں اس کی کوئی براہِ راست ذمہ داری بنتی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ وہ انسانی خدمت کے میدان میں، غیر جانبدارانہ طور پر کام کر رہی ہے اور اس کے خلاف کیے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ تاہم، اس تمام صورت حال میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب انسانی ہمدردی بھی سیاست کی نذر ہو جائے، جب امدادی تنظیمیں کسی مخصوص ریاست یا گروہ کے مفاد میں سرگرمِ عمل نظر آئیں؛ تو پھر کون عام انسان کے تحفظ کو یقینی بنائے گا؟ فلسطینی عوام، جو عشروں سے نہ صرف ظلم و تشدد کا شکار ہیں؛ بلکہ مسلسل غذائی قلت، طبی سہولیات کی کمی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی جھیل رہے ہیں، اب ان کے لیے امدادی مراکز بھی غیر محفوظ مقام ہوگئے۔ جہاں کبھی زندگی کی امید تھی، آج وہاں سے بھی شہادت کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔اگر انسانی امداد بھی عالمی سیاست کا آلہ بن جائے؛ تو انسانی وقار اور سلامتی کے تمام عالمی دعوے محض الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں۔

متنازعہ ماڈل اور بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی:
یہ فاؤنڈیشن غزہ میں امدادی سامان کی تقسیم کے لیے نجی امریکی سیکیورٹی اور لاجسٹکس کمپنیوں کی خدمات حاصل کر رہی ہے۔ ان میں سے بعض پر، ماضی میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کی وجہہ سے، اس امدادی عمل کی شفافیت اور غیر جانب داری پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ تنظیم اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم کردہ امدادی نظام کو تقریباً مکمل طور پر نظرانداز کر کے، اپنا علیحدہ نیٹ ورک چلا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس کے متعلقہ اداروں نے اس متبادل ماڈل کو "غیر محفوظ" قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ طریقہ کار انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی اصولوں، بالخصوص غیر جانب داری، مقامی ہم آہنگی اور شفافیت جیسے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ ماڈل نہ صرف امدادی عمل کو مشکوک بناتا ہے؛ بلکہ انسانی جانوں کو مزید خطرے میں ڈالنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ جب امدادی سرگرمیاں خود ایک تنازع کا حصہ بن جائیں؛ تو ان سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے کسی بھی قسم کی پناہ اور امداد کی توقع رکھنا فضول ہے۔

اسرائیلی مؤقف اور عالمی امدادی نظام کے لیے خطرات:
صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کا امدادی نظام حماس کے زیرِ اثر ہے اور اس کے ذریعے فراہم کی جانے والی امداد کو حماس اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس بیان کے ذریعے اقوامِ متحدہ جیسے معتبر بین الاقوامی ادارے کی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؛ تاکہ اس کی جگہ ایسے متبادل اور وفادار فلاحی ماڈلز قائم کیے جا سکیں جو اسرائیلی مفادات کے مطابق کام کریں۔ یہ رویہ عالمی امدادی نظام کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک خطے میں عالمی امدادی اداروں کو سیاسی مفادات کے تحت کمزور کیا گیا؛ تو یہ عمل دیگر متاثرہ علاقوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف امدادی نظام کی غیر جانبداری متاثر ہوگی؛ بلکہ انسانی ہمدردی کے عالمی اصولوں کی پامالی کا دروازہ بھی کھل جائے گا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید اور مطالبات:
انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنبیہ کی ہے کہ جی ایچ ایف جیسے نجی اور فوجی نوعیت کے امدادی ماڈلز غزہ کی مظلوم اور متاثرہ آبادی کو مزید سنگین خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ ان تنظیموں کا موقف ہے کہ ایسے متنازعہ نظام امدادی عمل کی غیرجانبداری کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کے تحفظ میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر روایتی اور بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے اصولوں پر مبنی امدادی نظام کو بحال کرے؛ تاکہ امداد صحیح معنوں میں ضرورت مندوں تک پہنچ سکے اور ان کی زندگیوں کو بچانے میں مدد ملے۔ اسرائیل کی جانب سے دو ماہ سے زائد عرصے تک غزہ میں امدادی سامان کی مکمل ترسیل بند کرنے کے باعث، وہاں بڑے پیمانے پر قحط اور انسانی بحران کے انتباہات سامنے آچکے ہیں، جس نے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ امدادی عمل کی شفافیت اور مؤثر انداز میں فراہمی نہایت ضروری ہے۔

عالمی برادری کی ذمہ داری اور انسانی ہمدردی کی بحالی:
یہ وقت ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مغربی ممالک، اپنی خاموشی توڑیں اور انسانی جانوں کی حرمت کو ریاستی پالیسیوں اور سیاسی مفادات پر فوقیت دیں۔ امدادی سرگرمیوں کو غیر جانبدار، محفوظ اور قابلِ اعتماد بنانا اقوامِ متحدہ کے ساتھ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر آج غزہ کے امدادی مراکز غیر محفوظ ہیں؛ تو کل یہی صورتحال دنیا کے کسی اور خطے یا قوم کے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہے۔ فلسطینی عوام کے لیے ان کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، فوری جنگ بندی اور شفاف امدادی نظام کی بحالی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ انسانی ہمدردی کو اگر تنازعات کی نذر کر دیا گیا؛ تو یہ صرف ایک انسانی بحران نہیں؛ بلکہ انسانیت کی موت کا آغاز ہوگا۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اپنے اخلاقی، قانونی اور انسانی فرض کو سمجھتے ہوئے، اس المیے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔

 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 212 Articles with 269721 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.