جنسی جرائم پر خاموش منبر، اندھی عدالتیں

یونیورسٹی میں کوئی ویڈیو وائرل ہو جائے، تو ”قوم کا مستقبل خطرے میں ہے“ ۔ کالج میں لڑکی سگریٹ پیتے پکڑی جائے، تو پورا سوشل میڈیا اخلاقیات کا جنازہ اٹھا لیتا ہے۔ لڑکا لڑکی کسی پبلک جگہ پر ساتھ بیٹھ جائیں، تو غیرت، تہذیب، اور اسلامی اقدار کے پہرے دار چیخ اٹھتے ہیں۔ خطیب منبر سے آگ اگلتے ہیں، مذہبی جماعتیں بیانات دیتی ہیں، اور ہر جانب ”تباہی کا وقت آ چکا ہے“ جیسے نعرے سنائی دینے لگتے ہیں۔ مگر جب مدرسے میں قاری صاحب بچے کو زیادتی کے بعد قتل کر دے۔ تو سب کے ہونٹ سل جاتے ہیں۔ کوئی ریلی نہیں نکلتی، نہ کسی خطبے میں نام لیا جاتا ہے، نہ ہی وہی مذہبی رہنما جو سوشل میڈیا پر یونیورسٹیوں کے خلاف طوفان برپا کرتے ہیں، اب ایک سطر بولنے کو تیار ہوتے ہیں۔

کیوں؟ یہ سوال صرف علما، مذہبی جماعتوں اور خطیبوں سے نہیں، یہ سوال ہم سب سے ہے۔ ہم سے جو جرم دیکھ کر چپ ہو جاتے ہیں، جو اداروں کی ”عزت“ بچانے کے چکر میں مظلوم کو بھول جاتے ہیں، جو مجرم کی داڑھی، پگڑی، وردی یا رتبہ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتے کسی قیامت سے کم نہیں تھے :


کراچی کے علاقے اورنگی میں ایک مدرسے کے مؤذن نے 10 سالہ بچے کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔ (روزنامہ جنگ، 3 جولائی 2025 )


ملتان میں 7 سالہ بچی کو قرآن پڑھانے والے قاری نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ (نوائے وقت، 6 جولائی 2025 )

پشاور میں ایک مدرسے میں 12 سالہ طالبعلم پر کئی دن تک تشدد کیا گیا، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ (ڈان، 9 جولائی 2025 )

خیبر میں ایک مسجد کے امام نے طالب علم پر جنسی حملہ کیا، اہلِ علاقہ نے پکڑا مگر پولیس نے ”ثبوت ناکافی“ کہہ کر چھوڑ دیا۔ (ایکسپریس، 12 جولائی 2025 )


لاہور میں بچی کو حفظ کے دوران مدرسے میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، خاندان کو خاموش رہنے کے لیے دھمکیاں دی گئیں۔ (دنیا نیوز، 14 جولائی 2025 )


ان تمام واقعات پر کیا ہوا؟ کیا کسی دینی اجتماع میں ان کا ذکر ہوا؟ کیا کسی مذہبی رہنما نے نام لے کر مذمت کی؟ کیا کسی مسجد میں ان مظلوم بچوں کے لیے دعا ہوئی؟ نہیں۔ کیونکہ مجرموں کے نام کے ساتھ ”قاری صاحب“ ، ”مولانا“ ، ”مفتی“ ، ”حافظ“ لگا ہوا تھا۔ کیونکہ جرم مسجد یا مدرسے کے اندر ہوا تھا اور ہم اس ”مقدس عمارت“ کی عزت بچانے کے لیے مظلوم بچوں کو نظر انداز کر گئے۔ مگر کیا یہی دین ہے؟ کیا یہی شریعت ہے؟ کیا قرآن نے انصاف کے لیے شرط رکھی ہے کہ دیکھو مجرم کس طبقے سے ہے؟ کیا نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر امام ہو تو معاف کر دو اور اگر گنہگار ہو تو سزا دو؟


پھر کیوں ہمارے ہاں جرم جرم نہیں رہا۔ بلکہ جرم اب ”شناخت“ کے تابع ہو چکا ہے؟ یونیورسٹی کا پروفیسر ہو تو پروفیسر یونین اس کے دفاع میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ سیاستدان ہو تو پوری جماعت اسے ”سیاسی انتقام“ قرار دیتی ہے۔ پولیس والا ہو تو کوئی پولیس اسٹیشن ایف آئی آر لینے کو تیار نہیں۔ اور اگر مولوی ہو، تو مذہبی طبقہ مکمل خاموش ہو جاتا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کیا مدرسہ، یونیورسٹی، آفس، تھانہ سب کے لیے انصاف کا معیار الگ الگ ہے؟ کیا ظالم کو اس کے مذہبی لباس، پارٹی ٹکٹ یا عہدے کے مطابق رعایت دی جائے گی؟ کیا ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مظلوم سے زیادہ ہمیں اپنے طبقے کے چہرے کی ”عزت“ پیاری ہے؟ اگر ایسا ہے۔ تو ہمیں ظلم کی حمایت سے کوئی روک نہیں سکتا۔ یہ خاموشی اب گناہ بن چکی ہے۔ جو جرم کو چھپائے، وہ شریکِ جرم ہے۔ جو مظلوم کی آواز نہ بنے، وہ ظالم کے ساتھ کھڑا ہے۔

یاد رکھیں! جرم اگر یونیورسٹی میں ہو، آفس میں ہو یا مدرسے میں وہ جرم ہے۔ مجرم، چاہے وردی میں ہو یا عمامے میں، عہدے پر ہو یا منبر پر وہ مجرم ہے۔ اور اگر آپ انصاف کے بجائے ادارے، فرقے یا شناخت بچانے میں لگے ہیں۔ تو آپ بھی شریکِ جرم ہیں۔


اب سوال یہ ہے ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا اپنے ”لوگوں“ کے ساتھ؟ ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے یا ظالم کی شناخت دیکھ کر فیصلہ کریں گے؟ ہم انصاف مانگیں گے یا عزت کے نام پر ظلم کو چھپائیں گے؟ یاد رکھیں! ظلم سے زیادہ خطرناک وہ خاموشی ہے جو ظلم کو دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتی۔

 

Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 58 Articles with 58334 views https://www.facebook.com/ziaeqalam
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More