صیہونیت کا ارتقاء:


تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
تاریخ کے صفحات میں کچھ تحریکیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتی نہیں بلکہ اپنے اندر کئی چہرے اور روپ چھپائے ہوتی ہیں۔ صیہونیت
ایسی ہی ایک تحریک ہے، جو مذہبی نعرے سے ابھری، سیاسی مقصد میں بدلی، اور بالآخر ایک جنگی نظریے میں ڈھل گئی۔
صیہونیت کا نام آج بھی دنیا بھر میں تنازع، نسل پرستی، اور جارحیت کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ ایسی نہ تھی۔ اس کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اس نے کس طرح عالمی حمایت حاصل کی؟ اور آج یہ کس رخ پر کھڑی ہے؟ آئیے اس ارتقائی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
صیہون کیا ہے؟
لفظ "صیہون"
(Zion)
دراصل یروشلم کے قدیم پہاڑی علاقے کا نام ہے، جسے یہودیوں کے نزدیک روحانی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔
جب "صیہونیت" کی اصطلاح استعمال ہوئی، تو اس کا مطلب تھا: یہودیوں کی اپنے آبائی وطن (فلسطین) میں واپسی کی تحریک۔
لیکن یہ محض واپسی کی بات نہیں تھی، بلکہ ایک سیاسی نظریہ تھا جو جلد ہی ایک ریاست کے قیام کی بنیاد بن گیا۔
مذہب سے بغاوت پر مبنی آغاز
حیرت کی بات یہ ہے کہ صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل
(Theodor Herzl)
اور اس کے ساتھی مذہبی یہودی نہیں تھے، بلکہ وہ مغربی یورپ کے سیکولر، لبرل، اور قوم پرست یہودی تھے۔
ہرزل نے اپنی مشہور کتاب
"Der Judenstaat"
(یہودی ریاست) 1896 میں لکھی، جس میں اس نے کہا:
"یہودیوں کو سیاسی و سماجی تعصب سے نجات دلانے کے لیے انہیں ایک علیحدہ ریاست درکار ہے۔"
یعنی یہ ایک پناہ گاہ کا تصور تھا، نہ کہ دینی حکم۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بہت سے مذہبی یہودی علما نے اس تحریک کی مخالفت کی، کیونکہ وہ اسے "خدا کے فیصلے میں مداخلت" تصور کرتے تھے۔
مغربی سامراج کی چھتری تلے
صیہونی تحریک کی عالمی شناخت اس وقت بنی جب اسے مغربی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہوئی:
1917
میں برطانیہ نے بالفور اعلامیہ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے "قومی گھر" کے قیام کا وعدہ کیا — حالانکہ فلسطین نہ خالی تھا، نہ برطانیہ کی ذاتی جاگیر۔
صیہونی رہنما برطانوی اور فرانسیسی سفارت کاری کے ماہر بن گئے، اور انہوں نے بین الاقوامی ہمدردی کو سیاسی منظوری میں بدل دیا۔
ہولوکاسٹ کے بعد اخلاقی جواز
دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے بعد عالمی برادری، خاص طور پر یورپ، یہودیوں کے ساتھ ہمدرد ہو گئی۔ صیہونیوں نے اس موقع کو خوب استعمال کیا اور کہا:
’’ہمیں اپنی سرزمین دی جائے جہاں ہم محفوظ رہ سکیں۔‘‘
لیکن جس سرزمین کی بات کی جا رہی تھی، وہ فلسطینیوں کی تھی، جن کا اس قتل عام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
یوں ظلم کے ازالے کے نام پر ایک نئی قوم پر ظلم کا دروازہ کھول دیا گیا۔
اسرائیل: صیہونیت کا سیاسی ظہور
1948
میں جب اسرائیل قائم ہوا تو صیہونیت نے اپنی تکمیل کا پہلا ہدف حاصل کر لیا۔ لیکن اصل ہدف فلسطین پر مکمل کنٹرول تھا۔
صیہونیت نے صرف "وطن کی واپسی" کا خواب نہیں دیکھا تھا، بلکہ ایک نسلی برتری پر مبنی ریاست کا قیام چاہا تھا، جہاں صرف یہودی کو "حقِ حکمرانی" ہو۔
باقی اقوام — خصوصاً فلسطینی — اس تصور میں "غیر موجود" سمجھی گئیں۔
جدید صیہونیت: ایک جارح نظریہ
آج صیہونیت محض ایک تحریک نہیں، بلکہ ایک نظامِ فکر بن چکا ہے:
یہ صرف فلسطین نہیں، پورے مشرقِ وسطیٰ کو اپنے کنٹرول میں لینے کا نظریہ رکھتا ہے۔
اس کا جدید چہرہ انتہاپسند مذہبی صیہونیت ہے، جو یہودی شریعت کو ریاستی قانون بنانا چاہتی ہے۔
یہ نظریہ آج غزہ، غرب اردن، اور القدس میں ظلم و بربریت کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔
عالم اسلام کی غفلت
صیہونیت کے ارتقاء کی داستان صرف یہودیوں کی چالاکی نہیں، مسلمانوں کی غفلت، تقسیم اور بے عملی کی بھی ایک المناک داستان ہے۔
عرب ریاستیں مفادات کے پیچھے لگیں، کبھی امریکہ کی گود میں، کبھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی لوری میں۔
کچھ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے "تاریخی سمجھوتہ" کیا، جبکہ اصل میں وہ نظریاتی شکست تھی۔
صیہونیت کا ارتقاء محض ایک قوم کی وطن واپسی کی داستان نہیں، بلکہ یہ مذہب کے لبادے میں چھپا ایک سیاسی منصوبہ ہے، جس نے فلسطین کو ملبے میں بدلا، انصاف کا منہ چڑھایا، اور عالمی ضمیر کو آزمائش میں ڈال دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا صیہونیت کے اس ننگے چہرے کو پہچانے گی؟
کیا مظلوم فلسطینیوں کی آواز کبھی اس شور میں سنی جائے گی؟
اور کیا اسلام کی امت خواب غفلت سے جاگے گی؟

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 232 Articles with 201882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.