پاکستان میں عالمی مہروں کا کردار اور اسکے اثرات-ایک بے لاگ جائزہ آخری حصہ

۷۷ء تک ہمارا معاشرہ تفرقہ بازی سے دور تھا وہ بھٹو حکومت کے دور میں بے راہ روی کیخلاف متحد ہو کر نظام مصطفے کے قیام کے نعرے لگا رہی تھی مذہبی بخار میں مبتلا ہو کر عالمی قوتوں کا آلائے کار بنا دی گئی اورضیاء الحق مرد مومن مرد حق بن کر ابھرے اقتدار ہاتھ میں لے کر عالمی طاقتوں کے احکاما ت کی تکمیل میں مشغول ہو گئے ۔ جب کہ قوم امریکہ اور یورپی اقوام کے کردار سے نالاں تھی ۔ فوجی حکمران نے نے قوم کو اس اس نظام مصطفے کا قیام کا وعدہ کر کے جہادی بخار میں مبتلا کر دیا اور اعتدال کو شدت پسندی میں تبدیل کر دیا لیکن اس میں شدت اس وقت دیکھی گئی جب یو ایس ایس آر کو دس سال تمام حربی آلات اور قوت استعمال کر کے بھی افغانستان میں بری طرح جانی مالی اور معاشی ہزیمت اٹھانا پڑی اس جدوجہد میں عالمی طاقتوں کو براہ راست تصادم سے گریز کرتے ہوئے کرائے کی فوج مل گئی جو دنیا کی بہترین لڑاکا فوج تھی عالمی طاقتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس ہی کی جنگ لڑنے پر مامور ہو گئی اور روسی قوت کو اس جنگ سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا وہ باعزت واپسی کی راہیں دھونڈ رہا تھا۔ لیکن وہ پاکستان یا افغانی حکومتوں یا مجاہدین کو یہ کریڈٹ دینے کو بالکل تیار نہیں تھا ، اس نے امریکہ کی بالا دستی قبول کرتے ہوئے باعزت واپسی کی خواہش کا اظہار کیا امریکہ نے اسے اس مصیبت سے چھٹکارا دلانے کا وعدہ اپنی شرائط تسلیم کروا کر منظور کر لیا امریکہ اور روس ایک فارمولے پر متفق ہو گئے جس میں پاکستان اور افغان مجاہدین کا بالکل کوئی کردار نہیں تھا ۔

دوسری طرف مجاہدین سرخ فوج کو کوئی نرمی دینے کو تیار نہ تھے ، اور وہ کسی ایسے فارمولے پر رضامند نہیں تھے جس میں انکی مرضی شامل نہ ہو ، عالمی قوتوں نے اس وقت پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ جہادی افرادی قوت جو ہیبت ناک لڑاکا افرادی قوت سے لیس تھی اس خطے میں عالمی مفاد کے لئے خطرہ قراردے دیا ۔ کل کے اتحادی آج کے دشمن قرار دے دئے گئے لیکن ان قوتوں سے براہے راست ٹکراؤ مشکل ہی نہیں نا ممکنات میں سے بھی تھا چالبازی سے اس قوت کو ختم کرنے کا منصوبہ روبۂ عمل لایا گیا۔ ا ن متحدہ جہاد ی قوت میں رخنہ شعہ اور سنی تفرقہ بازی اٹھا کر ڈالا گیا جو آپس میں مسلح تصادم کی صورت ظاہر ہوا ۔جس سے مذہبی تقدس کا پامالی ہوئی اور مذہبی شدت پسندی کوفروغ حاصل ہوا ۔

امریکہ اور ضیاء کے تعلقات اس کے بعد خراب ہو گئے ماضی کے دوست کو اقتدار سے ہٹانے کے حربے وزیر اعظم جونیجو کی مدد کر کے پوار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ضیاء نے یہ کوشش بڑی دلیری سے ناکام بنا دی اور حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اب عالمی قوتوں نے دوسرے منصوبے بنا کر اپنے ایجنٹوں کو استعمال میں لا کر پورا کر لیا اور ضیا ء الحق تمام تر جہادی سپورٹ اور ملکی اقتدار اعلٰی اور فوجی سربراہ ہونے کے باوجود اپنے ملک ہی میں اپنی حفاظت نہ کر سکے ان کا طیارہ تباہ کر دیا گیا اور وہ اپنے تمام رفقاء کے ساتھ راستے سے ہٹا دئے گئے۔

اس ملک میں آئی ایس آئی جسے دنیا کی مضبوط ترین انتیلیجیس ایجنسی ہونے کی خوش فہمی تھی اپنے رہنما کی زندگی کی حفاظت کرنے سے کیوں قاصر ہوئی۔ کیا اس میں بھی عالمی اثر و رسوخ تھا یا آرمی سکیورٹی میں کالی بھیڑیں گھسی ہوئی تھیں ۔ جبکہ ملک رو سی قوتوں کے خلاف حالت جنگ میں بھی تھا۔ چونکہ سازش درون خانہ ہی میں تیار ہوئی تھی کہیں باہر سے کاروائی نہیں ہوئی تھی ہاں ڈور وہیں سے ہلائی گئی تھی۔

یہ جہادی قوتیں جو سر خ فوج کے خلاف متحد تھی آپس میں الجھ کراسی شدت سے جنگ میں برسرپیکار ہو گئیں ۔ اسی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان عالمی قوتوں نے اپنے قدیم اتحادی جواس عالمی طاقتوں کے جہاد کے رو رواں اور پاکستانی اقتدار اعلٰی پر متمکن دوست کے طیارے کو تباہ کر کے راستے سے ہٹا دیا ۔ (جو ان جہادی افرادی قوت کی قیادت کر رہی تھیں اور ایک کلیدی حیثیت رکھتی تھی )۔

افغان جنگ کے دوران ان عالمی قوتوں نے ان مجاہدین کے مختلف گروپس میں اپنے ایجنٹ داخل کر دئے تھے جو اس تصادم کو بڑھاوے میں بہت کام آئے جس سے جہادی قوتیں تفرقہ بازی کی جنگ میں الجھ کر رہ گئیں ۔ اور روسی افواج بلا کوئی مزید نقصان اٹھائے کامیابی سے خطہ سے نکل گئیں ۔ ہم اس تفرقہ بازی کی جنگ میں بری طرح الجھ کر بہت خونریزی کا شکار ہو گئے ہیں کبھی مساجد کبھی مزارات کبھی امام بارگاہیں کبھی جلوسوں پر حملے بم دھماکے تشدد اور امریکی دوستوں کے ڈرون حملے پاکستان کو شدید جانی مالی اور معاشی بحران کا شکار کر کے اپنا اثر و رسوخ کسی نہ کسی صورت میں برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ اب تو اقتدار میں لانا اور بے دخل کرنا اور جان بخشی کرانا بھی امریکی مرضی سے منسلک ہو گیا ہے۔ اقتدار کے تحفظ کا زمہ بھی انہی کے پاس ہے جب تک وہ چاہیں ۔

اس کی مثال ایوب خان اوریحیح خان اور مشرف کی ہے جو ایک اشارے پر احکامات کی تکمیل میں اقتدار چھوڑ گئے دوسری صورت ان کا انجام بھٹو اور ضیاء سے مختلف نہ ہوتا ۔ حالیہ انجام صدام اور قذافی جیسا ہوتا یہ عالمی طاقتیں ان ممالک کے نظام پر اپنا مضبوط قبضہ رکھتی ہیں جسے نافرمانی کی صورت میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ فوج بھی ریاست کا دفاع کرنے کی صلاحیت سے معذور کر دی جاتی ہے۔ جیسے عراق ، لیبیا اور مشرقی پاکستان میں یہی صورت حال دیکھی جا سکتی ہے ۔

لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ایسے مہروں کی دولت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا جو ان کے بعد ان کے خاندانوں کی حیثیت ہی تبدیل کر دیتا ہے اور وہی اس ملک میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں اسے دیکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ نام لیے جا سکتے ہیں اور ان کا طرز رہائش بھی ان کے غیر ممالک میں اساسوں کو بھی تلاش کیا جاتا ہے جو ان کے بڑے اطاعت کے باعث کما کر خاندان کو بناتے رہے ہیں ۔

کسی ملک اور ریاست کی بقا کی ضمانت اس کے مضبوط نگرانی کے نظام سے مربوط ہے ، اس نگرانی کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کون کس طرح اور کیسے ضابطۂ اخلاق کی پیروی کرتا ہے خلاف ورز ی پر اسے جوابدہی کے مرحلے سے گزارہ جائے اور سز دی جائے اس سے غیر ملکی مہروں کو اپنی صفوں سے نکالنے میں بھی مدد ملے گی اور ا ملک ان کے وجود سے پا ک ہوجاے گا تب کچھ بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے ورنہ تو غلامی کا طوق گردنوں پر پڑا ہی ہوا ہے ۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75433 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More