زیب اذکارؔ حسین۔ فن و شخصیت
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
زیب اذکارؔ حسین۔ فن و شخصیت ٭ ڈاکٹر رئیس صمدانی (اردو سندھی ادبی سنگت‘ کے زیر اہتمام قلمکار زیب اذکار حسین کے فن و شخصیت کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب میں بطور مہمان اعزازی پڑھا گیا) ٭ علم و ادب میں محترم ہیں جنابِ زیب اذکارؔ مقبول ہیں اہل ادب میں اور ہیں بے حد نفیس شاعری ان کی خوب ہے اور افسانہ بھی بے مثال گفتگو بھی خوب ہے تحریر بھی ہے ان کی لاجواب علم و ادب کی دنیا میں زیب اذکار حسین معروف و ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جو اپنی تحریر نظم و نثر کو ہر اعتبار سے خوب سے خوب تر بناکر قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کب پرورشِ لوح و قلم کا آغاز کیا۔ میں اس سے لاعلم ہوں کہ میری ان سے دوستی کہیے یا تعلق کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ در حقیقت میں ادبی محفلوں سے ہی ان سے متعارف ہوا اور یہ بھی کہ اردو سندھی ادبی سنگت کی محفلوں میں ان سے قربت کا شرف حاصل ہوا۔ مجھے وہ ایک نفیس انسان لگے۔ احباب میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ ان کی زندگی، عملی و ادبی دونوں حیثیتوں سے، سادگی کا مرقع ہے۔ زیب اذکار انسان دوست ہمدرد اور خلیق ہونے کے ساتھ ساتھ محبت کرنے والے ہیں۔مجھے زیب اذکار حسین کی شخصیت میں ایک علم دوست، علم پرور، شاعر و ادیب، ماہر لسان و ادب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک برد بار، پختہ کار، جہاندیدہ انسان بھی د کھائی دیا جس کی زندگی کا مطمع نظر حصولِ علم، ترسیل علم و ادب کا فروغ دکھائی دیتا ہے۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ رواں دواں ہیں۔ زیب اذکار حسین کی ظاہری شخصیت ہی جاذب نظر وہ اندر سے بھی ایک اچھے انسان ہیں۔ بہ اخلاق ہیں خوش گفتار ہیں، خوش مزاج ہیں، خوش خوراکی کا اندازہ نہیں سب سے بڑگ کر یہ کہ اچھا انسان ہونا بڑی بات ہے۔ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کیا خوب کہا ؎ خدا تو ملتا ہے ، انسان ہی نہیں ملتا یہ چیز وہ ہے جو دیکھی کہیں کہیں میں نے ان کے چند تحریر کردہ افسانے میری پہنچ میں آسکے۔ یقینا اور بھی بہت کچھ، مختلف موضوعات پر انہوں نے لکھا، نثر ہی نہیں بلکہ وہ شاعر بھی بہت خوب ہیں۔ ان کی چند افسانوں میں مغائرت کی مٹی،حیر ت آباد سے بے دخلی پر،چھان بین،گمان آدمی کی کھوج،اجمال ایک افسانے کا، اور دیگر شامل ہیں۔ ان کے ایک افسانے ”گمان آدمی کی کھوج“ سے ایک پیراگراف جس سے افسانہ نگار کی افسانہ نگاری اور طرز تحریر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اس افسانہ کا بنیادی کردار ”رنگ اسیر“ ہے۔ اس کے بارے میں لکھتے ہیں ”رنگ اسیر کا حلقہ فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں کی دنیا تک محدود تھا۔یہی لوگ کہیں نہ کہیں اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتے تھے یا اسیر ان کی زندگی پر اپنا ایک اثر رکھتا تھا۔ کچھ بھی کہہ لیجئے رنگ اسیر فن میں یکتا تھا اور احباب اس کی اسی یکتائی کی وجہ سے بھی بس یہی لوگ اس کے گرد حلقہ کئے رہتے تھے۔ وہ بلاشبہ ایک اچھا اور کامیاب مصور تھا۔ ایک ایسا مشاق فن کار جو جس کردار اور جس ماحول کو تصویر کرنے کا فیصلہ کرتا رنگ اسی مناسبت سے اس کی آنکھوں کے سامنے بقول شخصے رقص کرنے لگتے۔ وہ خود کہا کرتا تھا ”یار میں جب بھی پینٹ کرنے کا سوچتا ہوں رنگوں کا ایک ہجوم ہے جو میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتا ہے تو پھر میں برش اٹھا لیتا ہوں“۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا ”رنگ مجھے کہتے ہیں کہ رنگ اسیر ہمیں اسیر کرو، ہمیں کہیں چھپا لو، اس ظالم دنیا سے بچالو اور اپنے پاس محفوظ کرلو“۔ زیب اذکار شاعر اورنثر نگار ہونے کے علاوہ صحافی،مدیر اور استاد بھی ہیں۔ ان کی ایک خوبی خوبصورت انداز ِ خطابت ہے۔ شاعر بہت حساس طبیعت کا ملک ہوتا، چنانچہ وہ بھی بہت حساس ہیں۔ ان کی حساسیت اس بات سے عیا ں ہوتی ہے کہ وہ اگر کسی ادبی محفل میں موجود ہوں اور کوئی مقرر اپنا یا کسی اور کا شعر غلط یا درست انداز سے نہ پڑھ رہا ہو تو وہ ان سے برداشت نہیں ہوتا، وہ اس کی اصلاح اسی وقت فرما دیتے ہیں۔ ایک خوبی ان کی یہ بھی ہے کہ وہ محفل کی صدارت کریں، مہمان خصوصی ہوں یا مقرر، ان سے قبل اظہار خیال کرجانے والوں کے نام لے لے کر ان کی تعریف بھی کیا کرتے ہیں۔ ان کی اس خوبی سے مجھ جیسے مقررین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ زیب اذکار حسین کی ظاہری وضع قطع، چہرے مہرے سے شرافت، تحمل، وضع داری، معصومیت اور شاعر اور قلم کار ہونے کا خوشگوار اظہار نمایاں ہوتا ہے۔ آخر میں وضع قطع کے حوالہ سے پروفیسر سَحر انصار صاحب کے اس شعر پر اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں۔ یہی ہے وضع ہماری یہی ہماری شناخت کبھی سنا ہے پرندوں کو پَر بدلتے ہوئے یکم اگست2025ء
|