کھیر: روایتی ذائقے کا میٹھا شاہکار

جب بات میٹھے کی ہو تو ذہن میں جو پہلا منظر ابھرتا ہے وہ کھیر کا ہوتا ہے۔ایک ایسا روایتی پکوان جو نہ صرف ذائقے بلکہ ثقافت کا بھی نمائندہ ہے۔ کھیر وہ میٹھا ہے جو نسل در نسل محبت‘ خوشی اور تہواروں کا حصہ رہا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ جدید میٹھوں اور بیکری مصنوعات نے ہماری روزمرہ زندگی میں جگہ بنا لی ہے لیکن کھیر اپنی سادگی اور ذائقے کی بدولت آج بھی ہر عمر اور طبقے کے افراد کی اولین پسند ہے۔
کھیر بظاہر سادہ پکوان ہے جسے دودھ‘چاول اور چینی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کا اصل لطف تب آتا ہے جب اسے مہارت‘ صبر اور محبت کے ساتھ بنایا جائے۔ ہر باورچی کھیر میں ایک الگ ذائقہ بھر دیتا ہے اور یہی اس میٹھے کی خاص بات ہے کہ یہ ذاتی لمس کا شاہکار ہے۔
کھیر کی ابتدا ئ کب اور کہاں ہوئی اس پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہے لیکن تاریخی شواہد اور سیاحوں کی تحریریں بتاتی ہیں کہ برصغیر میں کھیر جیسے میٹھے صدیوں سے پکائے جا رہے ہیں۔ ابن بطوطہ اور واسکو ڈی گاما جیسے مشہور سیاحوں نے اپنی سیاحت کے دوران کھیر کا ذکر کیا ہے۔ پرانے زمانے میں پڈنگ جیسے پکوان کو ’’کھیر‘‘ کہا جاتا تھا جو دودھ اور مٹھاس کے امتزاج سے بنتی تھی۔
اس وقت کے مقامی باورچی دودھ‘ شکر‘ پنیر‘ چاشنی اور گڑ کے ذریعے مختلف قسم کی میٹھی اشیائ تیار کرتے تھے۔ ابتدائی دور میں گاڑھے دودھ کو خشک کرکے مٹھاس کے ساتھ ملا دیا جاتا تھا جسے آج کی کھیر کا ابتدائی روپ سمجھا جا سکتا ہے۔
کھیر کی تیاری میں بنیادی طور پر دودھ‘ چاول اور چینی استعمال ہوتی ہے۔ ان سادہ اجزائ کے باوجود‘ کھیر کا ذائقہ اس وقت دوبالا ہوتا ہے جب اس میں کشمش‘ الائچی‘ دار چینی‘ بادام‘ پستے‘ زاعفران اور کیوڑہ شامل کیا جائے۔ بعض اوقات اسے چاندی کے ورق سے سجا کر پیش کیا جاتا ہے خاص طور پر خوشی کے مواقع پر۔
کھیر کی تیاری کیلئے دودھ کو تیز آنچ پر خوب اُبالا جاتا ہے‘ پھر اس میں دھلے ہوئے چاول شامل کئے جاتے ہیں۔ اس میں چینی‘ الائچی اور دیگر اجزائ کے ساتھ اسے دھیمی آنچ پر اس وقت تک پکایا جاتا ہے جب تک چاول گل کر دودھ میں مکمل طور پر گھل نہ جائیں اور مکسچر گاڑھا نہ ہو جائے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں کھیر کا اصلی ذائقہ سامنے آتا ہے۔
اگرچہ چاول والی کھیر سب سے زیادہ مشہور ہے لیکن کھیر کو دیگر اجزائ کے ساتھ بھی تیار کیا جاتا ہے۔ سوجی‘ گاجر‘ سویوں یا یہاں تک کہ دال کے ساتھ بھی کھیر بنائی جاتی ہے۔ ہر قسم کی کھیر ایک منفرد ذائقہ اور ساخت رکھتی ہے جو اسے خاص بناتی ہے۔مثال کے طور پر گاجر کی کھیر سردیوں میں مقبول ہوتی ہے جبکہ سوجی یا سویوں والی کھیر کو عموماً تہواروں پر بنایا جاتا ہے۔ ان اقسام میں بھی بادام‘ پستے‘ زاعفران اور دیگر خوشبودار اجزائ کا اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ ذائقے میں گہرائی لائی جا سکے۔
برصغیر میں کھیر صرف ایک میٹھا ہی نہیں بلکہ تہذیب کا حصہ ہے۔ یہ ہر خاص موقع‘ خوشی‘ عید‘ بارات‘ میلاد‘ بچے کی پیدائش یا گھر میں نئی شروعات پر لازمی پکایا جاتا ہے۔ اکثر گھروں میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ ہفتے یا مہینے کے کسی خاص دن کھیر ضرور بنائی جائے گی۔
اسے مٹی کے برتن میں جما کر پیش کرنے کی روایت بھی آج تک زندہ ہے۔ مٹی کے برتن نہ صرف اس کی شکل و صورت کو روایتی بناتے ہیں بلکہ ایک خاص ذائقہ اور خوشبو بھی شامل کرتے ہیں۔
کھیر کا تصور صرف برصغیر تک محدود نہیں۔ ایران میں اسی طرز کی ایک ڈش ’’شیر بیرنی‘‘ کہلاتی ہے، جسے دودھ اور چاول کے امتزاج سے بغیر چینی کے تیار کیا جاتا ہے اور مٹھاس کیلئے شہد یا مربے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دی آکسفورڈ کمپینین ٹو فوڈ میں ایلَن ڈیوڈسن لکھتے ہیں کہ شیر بیرنی کو ’’فرشتوں کی خوراک‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔
اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں ’’فیرنی‘‘ بھی ایک مشہور میٹھا ہے جو دودھ‘ کارن فلور یا چاول کے آٹے‘چھوٹی الائچی‘ عرق گلاب اور پستے بادام سے تیار کی جاتی ہے۔ اسے عموماً ٹھنڈا پیش کیا جاتا ہے اور خاص مواقع پر بڑے اہتمام سے سجایا جاتا ہے۔
کھیر صرف ذائقے کا نام نہیں بلکہ کئی مذاہب اور عقائد میں اسے عبادت اور عقیدت سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایران اور افغانستان میں ’’شولہ‘‘ کے نام سے ایک کھیر نما ڈش 10 محرم کو بطور نذر تیار کی جاتی ہے۔ اسے زاعفران اور عرق گلاب سے ذائقہ دیا جاتا ہے اور پھر اسے غریبوں‘ رشتہ داروں اور ہمسایوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس رسم کو عبادت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
کے ٹی آچاریہ جو کھانوں کے مشہور تاریخ دان کے ٹی آچاریہ اپنی کتاب ’’اے ہسٹوریکل ڈکشنری آف انڈین فوڈ‘‘ میں کھیر کو چاول کا میٹھا حلوہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق جب کھیر کو کسی رسمی موقع پر پیش کیا جاتا ہے تو چاول کو پہلے گھی میں ہلکا بھونا جاتا ہے اور پھر میٹھے دودھ میں پکایا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 14ویں صدی کے گجرات میں جوار کے ساتھ بنائی گئی کھیر کا ذکر بھی ملتا ہے۔
’’پیسم‘‘ بھی کھیر ہی کی ایک قسم ہے جو نسبتاً پتلی ہوتی ہے اور خوشی کے مواقع پر تیار کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں بھی دودھ‘ چاول اور چینی استعمال ہوتے ہیں لیکن پکانے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔
کھیر صرف ایک میٹھا نہیں ایک مکمل ثقافتی تجربہ ہے۔ اس کی تاریخ‘ تیاری‘ اجزائ‘ علاقائی اقسام اور مذہبی اہمیت‘ سب مل کر اسے برصغیر کی انمول روایات میں سے ایک بناتے ہیں۔ یہ میٹھا نہ صرف ذائقے میں لذیذ ہے بلکہ اپنی سادگی‘ تسلسل اور محبت کے رنگ لئے آج بھی ہمارے گھروں کا حصہ ہے۔ چاہے تہوار ہو یا سادہ سا موقع‘ کھیر ہمیشہ اسے خاص بناتی ہے۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 8 Articles with 1680 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.