نتائجوں کا برہمن - آخری قسط

مجھے بڑھیا کو دیکھ کر یہ اندازہ تو ہو گیا کہ ” کھنڈرات بتا رہے ہیں عمارت کتنی خوبصورت تھی“ میں نے ذرا جھجکتے ہوئے پوچھا، ماں جی آپ کے بچے تو ماشااللہ جوان ہوں گے ؟ اِس پر انہوں نے چائے ختم کر کے اپنے پوپلے منہ کو دائیں ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے بے باکانہ جواب دیا، میری شادی ہی نہیں ہوئی تو بچے کہاں سے آئیں گے۔ میں یہ سن کر حیران سا رہ گیا کہ بڑھیا دیکھنے میں کسی طرح سے بھی کم نہیں تھی پھر اس نے شادی کیوں نہیں کی ! آخر میں نے اپنی حیرت دور کرنے کے لیے پوچھ ہی لیا کہ ماں جی ایسا کیوں ہوا ؟ تو انہوں نے لاپرواہی سے جواب دیا ، ہم لوگ دو ماﺅں سے دو بہنیں اور دو بھائی ہیں ، چاروں کو کنوارہ چھوڑ کر ماں باپ مر گئے ، ایک بھا ئی انگلینڈ چلا گیا ، ایک بہن کو اپنے سوتیلے بھائی سے محبت ہو گئی وہ اُس کو لے کر کہیں چلی گئی اور میں اپنے باپ کے چھوڑے ہوئے مکان میں اکیلی رہ گئی ۔

بڑھیا کی دکھ بھری داستان سن کر مجھ میں مزید سوال کرنے کی ہمت نہیں رہی پھر بھی میں رسماً پوچھا ،ماں جی اور کچھ لیں گی ؟ بڑھیا نے مزید کچھ لینے سے انکار کیا تو میں نے اجازت چاہتے ہوئے کہا ، ماں جی مجھے کچھ ضروری کام ہے اس لیے اجازت چاہتا ہوں ، میرے لیے دعا کیجئے گا کہ جس کام سے یہاں آیا ہوں وہ خیرو خوبی سے انجام پا جائے، بڑھیا نے خوشدلی سے کہا ، اللہ سب ٹھیک کر دے گا چِنتا کی کوئی بات نہیں۔

میں بل دے کر وہاں سے رخصت ہوا ، بعد میں بشیر صاحب کے بیٹے نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ اِس بڑھیا کا انگلینڈ والا بھائی اسے اچھا خاصہ خرچہ بھیجتا ہے ، پھر بھی یہ بڑھیا دوسروں سے مانگ چانگ کر کھاتی ہے۔ میں نے اُس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئےکہا، اللہ جانے کیا مجبوری ہے بیچاری کوشاید احساس تنہائی یا کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے !

خیر مجھے اپنے کام کو دیکھنے نتائجوں جانا تھاجسے میں رام بابو کے حوالے کر آیا تھا، اسی دوران مجھے سلیم بھائی کا فون آ چکا تھا کہ اُس نے ٹانگو میں اپنے دوست ہندو کی بیٹی کے رشتے کی بات کی ہے جو بہار کا برہمن ہے اور وہ اس بات سے خوش ہے کہ اُس کی رشتہ داری کسی برہمن سے ہو رہی ہے، لہذا میں یہ خوشی کی خبر لے کر صبح سات بجے کی بس سے روانہ ہوا ، اس جلدی میں ڈالر ز کے بدلے لوکل کرنسی لینا بھی بھول گیا جس کی وہاں اشد ضرورت پڑتی تھی ،یہ سب آدھا راستہ طے ہونے کے بعد یاد پڑا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا ، یہ سوچ کر بیٹھا رہا کہ شاید ہوٹل والی سے کچھ مدد مل جائے گی مگر وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ وہ اس کام کو غیر قانونی سمجھتی ہے، رام بابو آیا تو اُس سے سب سے پہلا یہی سوال تھا کہ ڈالرز کیسے چینج کروائے جائیں کہ لیبر کی اور سپلائرز کی پیمنٹ بہت ضروری تھی جو میرے انتظار میں اُدھار کھائے بیٹھے تھے ، بابو نے بتایا کہ اسی ہوٹل میں چاول کے خریداری کے لیے رنگون سے آئے ہوئے دو مارواڑی ساتھ والے روم میں ہیں اُن سے بات کر کے دیکھتے ہیں وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیں گے ، یہ کہہ کر بابواُن کے کمرے میں گیا اور تھوڑی دیر میں اُن میں سے ایک کو ساتھ لے کر واپس آگیا، بابو کے ساتھ آنے والا سانولے رنگ اور درمیانے قد کا ہندو کمرے میں داخل ہوتے ہی ہاتھ جوڑتے ہوئے رام رام کہہ کر ایک طرف کھڑا ہوگیا تو میں نے اسے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹھنے کو کہا ، میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ہم لوگ ہر سال چاول کی فصل کے موقع پر یہاں آتے رہتے ہیں ، میری پریشانی کا سن کر اُس نے کہا کہ ہم اپنے مہاجن سے بات کریں گے جو مسلم ہے اور یہاں کا بہت بڑا چاول اور دال کا اسٹاکسٹ ہے ہمیں اُمید ہے اُس سے آپ کا کام ہو جائے گا ،ریٹ ہو سکتا ہے رنگون سے کچھ کم ملے مگر کیش آپ کو جتنا چاہیے مل جائے گا ، میں فوراً رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا آپ اُس سے بات کریں ریٹ کا بعد میں سوچیں گے ، کہاں ملے گا وہ اس وقت ؟ مارواڑی نے ہنستے ہوئے کہا ، ارے صاحب وہ زیادہ دور نہیں بس چند گز کے فاصلے پرہے میں ابھی اُس سے بات کر کے آپ کو بتاتا ہوں، میں سمجھ گیا کہ یہ اپنا بھی کچھ مشن بنانے کے چکر میں ہے ، مگر ضرورت اشد تھی لہذا تھوڑا تو برداشت کرنا ہی پڑے گا،وہ بابو کو ساتھ لے کر یہ کہہ کر چلاگئے کہ ہم دس منٹ میں واپس آ رہے ہیں آپ پریشان نہ ہوں، اور تھوڑی ہی دیر میں واپس آکر مسکراتے ہوئے کہنے لگا لیجئے صاحب آپ کا کام ہو گیا آپ چاہیں تو ایک لاکھ ڈالر کیش کروا لیں ، میں نے خوش ہو کر کہا ارے نہیں بھائی مجھے اتنا نہیں کروانا بس یہاں کے کام کے لیے کچھ تھوڑا بہت چاہیے باقی میں رنگون سے اپنے ایکسپورٹر کو کہوں گا وہ لے کر آ جائے گا۔

یہ کہہ کر میں بابو کو ساتھ لے کر اُس مہاجن کی بڑی سی دوکان پر گیا جس کا مالک عثمان بھائی تھا ، سلام دعاکے بعد آمدم برسرمطلب کی بات پر انہوں نے بڑی خوشدلی سے کہا ، ارے بھائی آپ ہمارے بھائی ہیں جب بھی کوئی ضرورت پڑے بے دھڑک آ جائیں، اتنے میں ا یک اد ھیڑ عمر کی خاتون سر پر دوپٹہ اوڑھے ایک ٹرے میں شربت اور کچھ بسکٹ لے کر آ گئیں، عثمان بھائی نے بتایا کہ یہ میری بڑی بہن ہیں اور اسی سال حج کر کے آئی ہیں ،میں نے اُ ن کی معصوم سی شخصیت کو دیکھ کر احترامً کھڑے ہو کر سلام کیا اس کے بعد عثمان کی بیوی اور ایک بیٹی نے آکر اسلام علیکم کہا ،( یہاں قارئین کو یہ بتانا ضرری سمجھتا ہوں کہ برمی مسلمانوں میں پردے کا رواج بہت کم ہے اور عورتیں مرد مل کر کاروبار کرتے ہیں) لہذا یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں تھی، میں نے رسماً عثمان کی بڑی بہن سے سوال کر ڈالا کہ آپ کے بچے کہاں ہیں ؟تو انہوں نے شرماتے ہوئے اپنے بھائی کی طرف دیکھا، جنہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ انہوں نے شادی ہی نہیں کی، میں بڑا حیران ہوا کہ یا الہیٰ یہ ماجرہ کیا ہے !!کیا برما کی اکثر عورتیں کنواری ہی مر جاتی ہیں؟؟یہ تو بعد میں بابو نے بتایا کہ ان کے باپ نے بہت ساری جائداد چھوڑی تھی جس کو بچانے کے لیے کہ کہیں کوئی باہر والا آ کر حصہ دار نہ بن جائے اس ڈر سے عثمان نے ہی ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا ۔

بہر حال ہم لوگ پیسے لے کر وہاں سے فوراً گودام پہنچے جہاں کام چل رہا تھا ، ہمیں دیکھ کر لیبر کے چہرے کھل اُٹھے کہ آج پیمنٹ کا دن تھا،پیمنٹ دیتے وقت میں نے محسوس کیا کہ بابو ایک نوجوان مزدور لڑکی کی بڑھا چڑھا کر تعریف کر رہا تھا ، کہ صاحب یہ بہت اچھا اور سب سے تیز کام کرتی ہے،غیر حاضری بھی نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ اور وہ لڑکی بھی مسکراتی نظروں سے بار بار بابو کی طرف دیکھ رہی تھی، باقی لیبر کی عورتیں جیسے اُن کے بیچ کے راز کو جانتی ہوں ، وہ بھی اُس کو ٹہوکے دے دے کر شرارت بھری باتیں کر کر کے ہنس رہی تھیں، میں سمجھ گیا کہ ضرور کچھ دال میں کالا ہے جو میرے پیچھے بابو نے شاید کچھ راستہ اختیار کر لیا ہے جیسا کہ برما میں اکثر ہوتا ہے کہ لڑکا لڑکی ایک مذہب کے نہیں ہوتے۔

پیمنٹ کر کے واپس جب ہم ہوٹل پہنچے تو میں نے بابو کو تیکھی نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا ، کیوں بھئی بابو تم اُس مزدور لڑکی کی بہت تعریف کر رہے تھے !! کیا ماجرا ہے، ؟ اس پر بابو نے ذرا شرماتے ہوئے کہا، صاب آپ میری شادی کے بارے پوچھ رہے تھے نا، بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ شاد ی اُ سی لڑکی سے کروں گا ، مجھے اُس سے محبت ہو گئی ہے، میں نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ارے بھئی تمہاری وہ لڑکی کے برہمن ہونے کی شرط کا کیا ہوا ؟ تم تو بڑے فخر کہتے تھے کہ ہم برہمن جات میں کسی اور جات کو مکس نہیں ہونے دیں گے مگر یہ لڑکی توہندو بھی نہیں برمی ہے جو تجھے بھی بدھ مت بنا لے گی اس کا کیا کرو گے ؟؟ بابو نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا ، تو کیا ہوا صاب آپ نے دیکھا کہ یہاں ایک ہوٹل والی مسلمان لڑکی سے شادی کرنے کے لیے ایک برمی مسلمان ہو گیا تو کیا ایک برمی لڑکی کی محبت میں ایک برہمن اپنا دھرم نہیں چھوڑ سکتا !! صاب پیار کرنے والوں کا دھرم تو ایک ہی ہوتا وہ دنیا کے کسی مذہب کو نہیں مانتے بس ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔

بابو کی یہ باتیں سُن کر میں نے اُس سے بحث کرنا فضول سمجھا ،اُُسے برہمن لڑکی کے رشتے کے بارے میں بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا اور خاموشی اختیار کر لی۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84003 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.