اے پتر ہٹاں تے نیئں وکدے

"ان بچوں کی عمر کیا ہے؟"۔

کاونڑ پر بیٹھی خاتون نے مجھ سے دریافت کیا۔

"۔"جی یہ ہی کوئی چار ہفتے

میں نے قدرے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

۔"ہمیں افسوس ہے کہ ہم یہ بچے آپ سے نہیں لے سکتے ہیں، کیونکہ یہ ابھی ماں کے دودھ پر ہی ہیں"۔

یہ جواب سن کر میں نے اپنی بیٹی ایمان کی طرف مایوسی سے دیکھا لیکن پھر فورا کچھ یاد آنے پر اس خاتون سے دوبارہ مخاطب ہوا:۔

۔"لیکن اب تو ان بچوں نے ٹین میں پیک تیار شدہ غذا بھی کھانا شروع کردی ہے؟"۔

۔لیکن پھر بھی جب تک یہ بچے آٹھ ہفتے کے اور انکا وزن دو پونڈ نا ہوجائے ہم انہیں نہیں لے سکتے ہیں ۔

ایک بار پھر میری، ایمان اور علی کی نگاہیں چار ہوئیں اور پھر ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے یہ کہا:۔

" لگتا ہے کہ یہاں تو اپنی دال گلنے والی نہیں!"۔

لیکن میں نے اپنے دونوں بچوں کی آنکھوں سے ابلتی خوشی کو ضرور بھانپ لیا تھا۔ بحرحال میں، ایمان اور علی واپس جانے کے لیے مڑے ہی تھے کہ پھر اس خاتون کی صدا پر ہم واپس پلٹنے پر مجبور ہوئے:۔

۔"دیکھیں اگر آپ ان بچوں کو اپنے پاس رکھنے سے قطعاً معذور ہیں تو اس ادارے سے رابطہ کریں۔ بس زرا آگے اگلی گلی ہی میں واقع ہے، ممکن ہے وہ اس سلسلے میں کچھ آپ کی مدد کرسکیں، اسمیں انکا نام پتہ اور فون نمبر درج ہے"۔

خاتون نے مجھے ایک کاغذ کی چٹ پکڑاتے ہوئے کہا:۔

۔"اور ہاں ان بچوں کے آٹھ ہفتے کی عمر کے ہوجانے کے بعد بھی انہیں ہمارے ادارے میں داخل کرنے کی لازمی شرط یہ ہے کہ ان کے ہمراہ انکی ماں کو بھی لایا جائے، ماں کا دودھ لازماً خشک ہوچکا ہو اور پھر ہمارے ادارے ہی میں اٌسے حمل بندی کے عمل سے گزار کر آپ کے حوالے کرکے بچوں کو ادارہ رکھ لیگا اور اسکے لیئے آپکو پیشگی اپائنٹمینٹ لینا ہوگا اور ساٹھ ڈالر فیس بھی جمع کروانا ہوگی"۔

خاتون کا شکریہ ادا کرکے اٌس دوسرے ادارے کی جانب روانہ ہوئے اور تھوڑی ہی تلاش کے بعد ہم سب ایک بار پھر کاونڑ کے پیچھے بیٹھی ہوئی ایک دوسری خاتون کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور اٌس نے بھی ہمیں وہی بات کہی جو ہم پہلے ادارے میں سن کر آرہے تھے، البتہ اس کاونٹر کے پیچھے کمرے میں ایک میز پر رکھے کمپیوٹر پر کام کرتی ایک دوسری خاتون کے دریافت کرنے پر میں نے بچوں کو ادارے کو دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا:۔

۔"دراصل یہ میری بیٹی ایمان کی بلی کے بچے ہیں ان بچوں کے سارے جسم میں بے تحاشہ جوئیں پڑ گئیں ہیں اور ہم نے بازار میں دستیاب جوئیں مار شیمپو بھی استمال کر کے دیکھا ہے لیکن کوئی افاقہ نہیں ہورہا ہے، ان بچوں کی کل تعداد چھے ہے اور ایک تو میں اپنے بچوں کے اصرار پر انکے لیے گھر ہی چھوڑ آیا ہوں اور ایک بچہ میرے بیٹی نے اپنی ایک ہم عمر سہیلی کے حوالے کردیا ہے اور اب یہ بقیہ چار بچے ہم کسی ایسے ادارے کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو نا صرف انکا مناسب خیال رکھیں اور کوئی مناسب خاندان ادارے کی توسط سے انہیں (ایڈآپ) گود لے لیں، اسی مقصد سے ہم پہلے ’’ہیومین سوسائٹی‘‘ کے دفتر بھی گیئے تھے"۔

میری بات سن کر وہ ہی خاتون پھر بولی:۔

۔"دیکھیں اگر معاملہ محض جوؤں ہی کا ہے اور جوئیں مار شمپو کام نہیں کررہا تو اسکے لیے توایک انتہائی موثر پل (گولی) دستیاب ہے جو ان بچوں کو کھلا کر جوؤں کا مکمل و تادیر خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور ہمارے ادارے ہی میں انہیں یہ گولی کھلا دی جائے گی"۔۔"جی ضرور۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! اگر ایسا ممکن ہے تو بہت ہی اچھا ہے!!!"۔

اس خاتون نے فوراً ہی ایک اور خاتون کو طلب کیا۔ یہ ایک دبلی پتلی سے ادھیڑ عمر کی گوری خاتون تھی اور اس نے کاونڑ آفس سے باہر آکر وہ چھوٹا سا ڈبہ (پیٹ کیریئر) میرے ہاتھ سے لے لیا جس میں وہ چار عدد بلی کے چھوٹے چھوٹے بچے رکھے تھے۔ اس نے وہ ڈبہ کھولا تو اسمیں وہ چاروں بچے ایک دوسرے سے لگے ہانپ رہے تھے جسے دیکھ کر وہ افسوس ذدہ و دکھی لہجے میں بولی:۔

۔"اوہ! ویری بیڈ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"، "یہ ڈبہ تو ان کے لیے بہت ہی چھوٹا ہے اور انہیں اسمیں گرمی لگ رہی ہے، زرا دیکھیں تو یہ سب کیسے ہانپ رہے ہیں"۔

اس نے ان بچوں کو ڈبے سے نکالا اور ایک اور خاتوں مدگار کو طلب کیا اور پھر ان بچوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کردیا اور پھر بولی:۔

"ان سب میں تو کافی تعداد میں جوئیں پھیل گئیں ہیں، اس عمر کے بچوں میں جوئیں کافی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اور چونکہ یہ انہی کے خٌون پر پروان چڑھتی ہیں ، یہ مر بھی سکتے ہیں لہٰذا پہلے تو ان کو ایک خاص جوؤں مار شیمپو سے غسل دینا ہوگا اور پھر انہیں وہ خاص گولی کھلائی جائیگی جو ان بچوں کے خون میں سرایت کرکے موجودہ اور بعد کو ہونے والیں جوؤں کا بھی خاتمہ کردیگی"۔

اس خاتون کی باتیں سن کر ایمان میرے کان میں سرگوشیانہ انداز میں بولی:۔۔"ڈیڈی۔ ۔ ۔ ۔ ! کیوں نا ہم دیگر دو بچوں اور" کٹو" (ایمان کی بلی کا نام) کو لے آئیں، اسطرح سے انکو بھی اس خاص جوئیں مار شیمپو کے غسل کے ہمراہ وہ جوئیں مار گولی میسر آ سکے گی"۔

ایمان کی بات سن کر میں نے اسکی طرف تحسین آمیز نظروں سے دیکھا اور پھر اس خاتون سے کہا:۔

"اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم دیگر دو بچوں اور انکی ماں کو بھی لے آئیں اور تب تک ان بچوں کو آپ اپنے پاس ہی رکھیں ، ہمیں کوئی آدھ گھنٹہ کے لگ بھگ واپسی میں لگ جائے گا"۔

اسکی اجازت پا کر ہم ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے اور واپسی میں ہمیں کوئی گھنٹہ بھر سے بھی زائد وقت لگ گیا اور میں سارے راستے یہ ہی سوچتا رہا کہ شاید وہ لوگ ہمارے بارے میں یہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ لوگ آدھے گھنٹے کا کہہ، بلی کے بچوں سے گلو خلاصی کروا کر با آسانی رفو چکر ہوگئے ہیں اور مذید برآں یہ کہ ان لوگوں نے بناء کوئی نام و اتہ پتہ لئے بغیر ہی ہمیں آخر جانے ہی کیوں دیا؟ یہ بھی تو ممکن تھا کہ ہم واپس ہی نا آتے۔

بحرحال ہماری واپسی پر اس خاتون نے دیگر دو بلی کے بچوں اور انکی والدہ محترمہ کو انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ ہمارے سامنے ہی ایک کمرے میں نصب بڑے سے سنک میں ایک خصوصی خوشبو دار جوئیں مار شیمپو سے غسل دیا اور پھر بڑے پیار سے ان کے بالوں میں ایک سٹیل کی کنگھی سے تمام مردہ جوئیں جدا کیں، بھر انہیں جووُں سے بچاوُ کی گولیاں بھی کھلائیں اور پھر بہت ہی پیار اور احتیاط کے ساتھ دونوں بچوں اور انکی اماں کو نرم و ملائم تولیوں سے اچھی طرح سے خشک کیا اور مجھ سے مخاطب ہوئیں:۔

"میں آپکو ان بچوں کی آسان آمدورفت کے لیئے ایک بڑے سائز کا "پیٹ کیرئیر"، ان کی ماں کے لیئے ایک علحیدہ سے بڑا والا "پیٹ کیرئیر" اور ان کے رھنے کی خاطر لوہے کی جالیوں سے بنا ایک بڑا فولڈنگ پنجرہ بھی دے رہی ہوں جسمیں یہ تمام کے تمام بچے بمعہ اپنی ماں کے آرام سے رھ سکتے ہیں"۔

"اور انکی قیمت کیا ہوگی؟"۔

میں نے خاتون سے سوال کیا۔

"جی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکی کوئی قیمت نہیں، یہ ادارے کی طرف سے آپکو بطور لون دیئے جارہے ہیں، جب ان اشیاء کی ضرورت نا رہے تو آپ انہیں ہمارے ادارے کو واپس کردیجیئے گا تاکہ اسے مزید کسی اور ضرورت مند کو دیا جاسکے"۔

اور پھر وہ تینوں چیزِیں جن کی بازار کی قیمت کم و بیش 100 / 150 ڈالروں سے بھی ذائد بنتی تھی، ہمیں بناء کسی نام پتے یا ضمانت کے اللہ بھروسے دے دی گئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔

یہ آج سے چند ماہ قبل کا واقعہ ہے اور اس واقعے کو پڑھ کر یقیناً آپکو سب کو امریکی معاشرے میں جانوروں سے محبت اور ان سے انکے مشفقانہ رویئے کا کچھ اندازہ تو ضرور ہوا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی مدِنظر رکھیں کہ ہمارے نام نہاد اسلامی معاشرے میں انہیں کافر اور نا جانے کیا کیا کچھ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے کو پیش کرنے کے بعد اب میں پڑھنے والوں کی خدمت میں ایک دکھی باپ کی دکھ بھری بپتا پیش کرتا ہوں کہ کس طرح سے مسیحا کے روپ میں ایک پتھر دل انسان نے والدین کی آنکھوں کے سرور اور دل کے چین کو ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے دور کردیا اور سب کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں کہ:۔

کیا ہمارے معاشرے میں ایک انسان کے بچے کی حیثیت ایک بلی کے بچے سے بھی کمتر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟

/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/\/

اکتوبر کی ایک اتوار میرا ڈیڑھ سالہ لخت جگر زین احتشام پانی کی بالٹی میں ہاتھ مار کر چھینٹوں سے کھیل رہا تھا ۔ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ سر کے بل بالٹی میں جا گرا ۔اس کی ماں نے اسے فوراً نکالا لیکن پانی اس کے حلق میں چلا گیا اور وہ گہری گہری سانسیں لینے لگا ۔اسے اٹھا کر فوراً قریبی چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹراصغر چوہدری کے کلینک لے جایا گیا۔ مگر اس بد بخت ڈاکٹر نے جب یہ سنا کہ بچہ پانی میں گر گیا ہے تو اس نے اسے فر سٹ ایڈ دینے سے انکا ر کر دیا۔ اور یہی کہتا رہا اسے سرکاری ہسپتال لے جائیں ہم10منٹ تک ا س کی منت سماجت کرتے رہے کہ آپ پیڈز ڈپلومہ ہولڈر ، چائلڈ سپیشلسٹ ہیں اس لیے سرکاری ہسپتال کے ایم او سے زیادہ قابل ہیں سو ہم اسی لئے آپ کے پاس لائے ہیں مگر اس دو منزلہ ہسپتال کے مالک ڈاکٹر اصغر نے کہا کہ نہیں میں اسے ٹریٹمنٹ نہیں دے سکتا ۔ میرا دماغ نہ کھاؤ۔

ہم روتے پیٹتے ، ہچکیاں لیتے اپنے بچے کو اٹھا کر سرکاری ہسپتال کی طرف بھاگے ۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی زین نے آخری قے کی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ اس سفاک اور درندہ صفت ڈاکٹر کی وجہ سے ایک ہسنتا کھیلتا معصوم بچہ اپنی جان سے گیا۔ ایک گو میں صف ماتم بچھ گیا ۔ ایک ماں کی گود اجڑ ئی ۔ ایک باپ کا کلیجہ پھٹ گیا۔

ایک دور وز بعد خود یونین آف جر نلسٹ نے اس ڈاکٹر کی سفا کی کے خلاف نیوز اخبارات میں لگوائیں ۔ لیکن بحیثیت ایک باپ اور انسان میں نے کوئی بھی ایکشن لینے سے پہلے ڈاکٹر کو فون کیا اور پوچھا کہ آپ نے زین کو فر سٹ ایڈ کیوں نہیں دی ۔ تو اس درندے ڈاکٹر نے بر ملا کہا کہ ڈاکٹری قانون میں بھیگے ہوئے بچے کو ہم فرسٹ ایڈنہیں دے سکتے ۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب اگر آپ کا اپنا بچہ یوں بھیگ جاتا تو آپ بحیثیت ڈاکٹر اسے خود چیک کرتے یا ایم او کے پاس ہسپتال لے جاتے تو اس نے کہا ہسپتال لے جاتا۔ آپ ہی بتائیے یہ کون سا قانون ہے جو ایک ڈیڑھ سالہ معصول بچے کو چیک کرنے سے روکتا ہے۔ میری سینئرز ڈاکٹرز سے بات ہوئی تو سب نے کہا کہ ایسا کوئی قانون ہے ہی نہیں ۔ وہ صرف اپنی رپوٹ بچانے کے لئے ایسے مریض ہینڈل ہی نہیں کرتا کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو اس کی دو کاندداری متاثر ہو گی ۔

یہ کیسی دو کانداری ہے یہ کیسی چور بازاری ہے ۔ خدا را اس ڈاکٹر کے خلاف جہاد میں میرا ساتھ دیں ۔وہ پہلے بھی اسی طرح کئی معصوم پھولوں کی جان لے چکا ہے مجھے تو 100فیصد یقین ہے کہ یہ ڈاکٹر ہے ہی نہیں ۔ اس کی ڈگر یاں چیک کی جائیں ۔ اور اس سے پوچھا جائے کہ یہ انتہائی نگہدا شت یا زخمی مریضوں کو چیک کیوں نہیں کرتا ۔کیایہ صرف نزلہ اور گلہ ہی کی دوائی دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر اصغر گورنمنٹ ملازم ہے 18ویں سکیل میں EDOآفس میں جاب بھی کرتا ہے۔ وہاں حاضری لگا کر آجاتا ہے۔اور سارا دن دوکانداری کرتا ہے۔

میری حکام بالا سے گزارش ہے کہ اس کی محکمانہ کاروائی کی جائے آج سے میں ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتا ہوں ۔ میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک اسے قرار واقعی سزا نہ دی جائے ۔ انشائاللہ آئندہ اور کوئی زین اس درندے کے ہاتھوں نہیں مرے گا۔

حق اور سچ کی جنگ میں ۔۔۔میرا ساتھ دیجیئے ۔اگر ہم آج متحد ہو گئے تو معاشرے سے ایسی کالی بھیڑوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

ایک سوگوار اور دکھی باپ

احتشام جمیل شامی

ڈسٹرکٹ چیئر مین : قومی امن کمیٹی و بین المذاہب ہم آہنگی

(وزارت داخلہ ۔ حکومت پاکستان)۔

چیف ایڈیٹر : ہفت روزہ گر دو نواح اوکاڑہ
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 50834 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.