مشن خنجراب (وقار کا سفرنامہ) چھٹی (آخری) قسط
(M. Qasim Waqar Sialvi, Faisalabad)
فیصل آباد سے خنجراب پاس تک کاسفر جو موٹرسائیکل پر کیا۔ اب تک پانچ اقساط آپ نے ملاحظہ کر لیں، یہ چھٹی اور آخری قسط ہے۔ امید ہے آپ کو سفرنامہ پسند آیا ہوگا۔ اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ مزید |
|
|
بابوسر ٹاپ سے بابوسر گاؤں کا منظر، یہاں بیٹھ کے ان حسین مناظر کو دیکھنا بھی ایک یادگار منظر ہے |
|
17 ستمبر 2025ء کی رات مختلف خیالات میں گھومتے گھماتے گزری، کبھی ذہن خنجراب کی یخ بستہ ہواؤں میں تو کبھی آج چلاس کے اوون سے گزرنے بارے سوچتے گزری۔ آج واپس ہٹیاں بالا کیلئے نکلنا تھا۔ صبح ناشتہ کیا اور گھر والوں کیلئے بطور یادگار ڈرائی فروٹ خریدنے نکل پڑے، علی الصباح پہلی ہی دکان کھلی ملی وہیں سے کچھ خریداری کی جس سے جیب پیسوں سے خالی ہوگئی۔ پھر این ایل آئی مارکیٹ میں اے ٹی ایم پر پہنچے کچھ زاد راہ کے لیے رقم لی، میزبان کو الوداع کہا، خوبصورت اور شانداد میزبانی پر شکریہ ادا کیا، دوبارہ ملاقات تک کے لیے ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔
موٹر سائیکل کی فیول گیج بتا رہی تھی کہ اس کو بھی ناشتہ کروا لیا جائے، پی ایس او پیٹرول پمپ سے فیول ٹینک فل کروایا ، موٹر سائیکل کے دونوں ٹائروں میں ہوا چیک کروائی، کیونکہ اگر پریشر زیادہ ہوا تو راستہ میں گرمی سے مزید بڑھے گا۔ کم ہوا تو ڈبل سواری کی بدولت ٹائر کریک ہونے کا اندیشہ ہے۔ جن سے ہوا بھروائی انہوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا کہ مہمان ہو، مسافر ہو بس دعا کر دو۔ زور زبردستی پچاس روپے کا نوٹ دیا کہ آپ بھی بچوں کا رزق کما رہے ہو اس لیے رکھ لیں۔
پانی کی بوتلیں خریدیں، کچھ گھونٹ پیے باقی بیگ میں رکھ لی تاکہ راستے میں بوقت ضرورت کام میں لائی جاسکے، گلگت پیٹرول سے سفر دن کے 11بجے شروع کیا۔ انڈس ریور یعنی دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر جاری رہا کبھی پختہ روڈ تو کبھی ٹوٹی سڑک، چلاس پہنچے، چلاس سے بابوسرٹاپ، راستے میں ایک جگہ کچھ آرام کیا۔ بابوسرٹاپ کی آخری چڑھائیوں سے پہلے کچھ دیر سستانے کو رکے مقصود صاحب کو واک کا شوق سوار ہوا کہتے آگے نکلتا ہوں دس پندرہ منٹ بعد آپ بھی نکل آنا۔ دس پندرہ منٹ بعد سفر شروع کیا تو مقصود صاحب ندارد۔ یا اللہ یہ بندہ کہاں گیا؟ دوتین موڑ اوپر جا کے کافی دیر کھڑا رہا، دل میں سو وسوسے کہ اس علاقہ بارے ویسے ہی افواہیں گردش کرتی ہیں لوٹ مار کی تو کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ ابھی سوچوں میں گم کھڑا تھا کہ چند بچوں نے آ گھیرا، کوئی بیگ ٹٹولنے لگا کوئی دامن کھینچنے لگا، پیسہ دو پیسہ دو۔ یا اللہ یہ کیا افتاد ہے، موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کیا آگے بڑھا ہی تو بچے باقاعدہ بد دعائیں دینے لگے، اگلے موڑ پر پھر سے چار پانچ بچے عین روڈ کے وسط میں کھڑے تھے ہاتھوں میں پتھر اٹھائے، پیسہ دو پیسہ دو، ان سے بچ کے نکلا تو پیچھے سے ایک پتھر موٹر سائیکل کو آن لگا۔ شکر ہے ان کا نشانہ ابھی کچہ تھا ورنہ اوئی اللہ ہماری بھی نکل آتی، اس ٹریک پر پٹھانوں کے بچے بڑی تعداد میں ہیں، بالکل ویلے اور روڈ پر پیسہ دو پیسہ دو، اب باقاعدہ روڑے مارنے، ریت پھینکنے، بد دعا دینے کے ساتھ ساتھ سڑک پر پتھر رکھ کے سپیڈ بھی آہستہ کروا لیتے ہیں، اور بابوسرٹاپ کی چڑھائیوں پر تو ویسے بھی سپیڈ بہت کم ہوتی ہے۔
مقصود کی ٹینشن کی جگہ اپنی شروع ہوگئی کہ یہاں پتھر لگنے سے زخمی ہوا یا بائک کا نقصان ہوا تو الگ سے رولا بن جانا۔ پھر سوچا اوپر پہنچتا ہوں آجائے گا۔ ایس کام کے سگنل تھے مگر اس کے پاس ایس کام کی سم نہ تھی۔ خیر اوپر پہنچا تو میرے سے پہلے جناب جلوہ افروز تھے، تفصیلات کے مطابق ان کو کار والے نے لفٹ دے دی تھی۔ مزید وقت ضائع کیے بنا کچھ دیر رکنے کے بعد اترائی شروع کر دی۔ لولوسر جھیل سے پہلے برساتیاں اتارنے لگے تو دور اوپر ایک لڑکا کھڑا نظر آیا۔ ابھی ہم نے ہوڈ ہی اتارے تھے کہ ہمارے سر پر آن پہنچا، نجانے کس واردات پر تھا، ہم نے نکلنے میں عافیت سمجھی اور جھیل کے پاس رک کر باقی لباس کی سیٹنگ کی اور سفر پھر سے شروع، ناران شہر کے اندر سے نہیں بلکہ بائی پاس کاراستہ لیا تاکہ واقت بچے اور دن کی روشنی میں وہ آبشار کراس کر لیں جس نے ہم کو آتے وقت بھگو دیا تھا۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا۔ مغرب سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا۔ رک کر تسلی کر کے چیک اپ کیا کہ کدھر سے گزرنا ہے، ایک ملنگ صاحب جوتے کے بغیر پانی سے گزرے تاکہ ہم کو معلوم ہو سکے کہ ادھر سے آسانی ہے۔ اسی راستہ سے بخیریت نکل گئے۔ کاغان پہنچتے پہنچتے مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ ایک ہوٹل میں چائے روٹی سے شکم سیری کی پھر سے سفر شروع ہوگیا۔ اب مکمل سفر رات کی تاریکی میں جاری تھا۔ بالاکوٹ پہنچ کے ایک ایک کپ چائے مزید پیا، شوز کور مع برساتیاں اتار کے بیگ میں رکھیں اور گڑھی حبیب اللہ کی طرف چل دیے، گڑھی حبیب اللہ کا راستہ چونکہ جنگلی گھاس، درخت اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے تو ایک حشرات الارض کی ایک خاص قسم کی آواز آرہی تھی جیسے خراب اور خشک بیرنگ سے آتی ہے، میں تو پریشان ہوگیا کہ لو کی موٹر سائیکل کے بیرنگ فارغ ہو گئے ہیں، کبھی کہ آواز زیادہ آتی کبھی کم، میں کبھی کھڈے میں زور سے گزارتا، کبھی سپیڈ بڑھا، کبھی گھٹا کہ پتا چلے کہ یہ چیں چیں ہے کس کی ، رات بڑھتی جا رہی تھی اس لیے وقت نہ تھا کہ روک کے چیک کروں۔ مظفرآباد پھر گڑھی دوپٹہ اور ندول شریف رات بارہ بجے سے پہلے جا پہنچے، کھانا بالکل تیار تھا، بڑے شاہ جی نے استقبال کیا، کھانا کھایا اور بستروں میں جا پہنچے اس طرح جس طرح ایک تھکا ہارا مسافر پہنچتا ہے۔
صبح نو بجے کے قریب ناشتہ کیا جس کی میزبانی سید اقبال شاہ جی نے کی، پرتکلف ناشتہ کے بعد ان کے گھر کے صحن میں لگے امرود کے پیڑ سے کچھ امرود اتارے اور واپس جائے سکونت پر پہنچ کے فیصل آباد واپسی کی تیاری کرنے لگے۔
سامان، بیگوں سمیت مقصود صاحب کے حوالہ کیاجو بذریعہ بس سید امتیاز شاہ جی کے ہمراہ واپس فیصل آباد روانہ ہوگئے، میں ماجد شاہ کے انتظار میں دوبارہ نیم دراز ہوگیا۔ جب تک ماجد شاہ جی واپس پلٹے گہری نیند میں پہنچ چکا تھا، انہوں نے بھی نہ جگایا۔ جب جاگا تو اجازت مانگی کہ واپس نکلنا ہے تو انکار میں جواب ملا کہ آج نہیں کل چلے جانا۔ شام کو باسط شاہ جی المعروف وکیل سرکار کی کال آگئی کہ صبح میں پہنچ رہا ہوں واپس نہیں جانا۔ یوں جمعرات اور جمعہ کا دن وہیں گزرا، جمعہ کی تیاری کے وقت میسج کیا کہ استری عطا کی جائے سوٹ پریس کرنا ہے جمعہ پڑھنے جانا ہے، جب بیگ کی تلاشی لی تو کونسا سوٹ؟ کپڑے تو سارے دوسرے بیگ میں فیصل آباد پہنچ چکے تھے، زندگی کا پہلا جمعہ تھا جو میں نے ٹراؤزر اور ہاف بازو شرٹ میں پڑھا، لوگ گھور گھور کے دیکھتے تھے کہا کچھ نہیں شاید کسی محکمہ کا کارندہ نہ سمجھ لیا ہو۔ 🤪
جمعہ کے بعد شاریاں تک رائیڈ کی جو لیپہ ویلی کے راستے میں پہلی چیک پوسٹ ہے۔ مقصد لیپہ ویلی کے سرخ چاولوں کی خرید تھی جو وہاں سے نہ ملے، واپسی پر لمنیاں سے کچھ تازہ اخروٹ خریدے، ماجد شاہ جی کے دوست نے مکئی 🌽 کی کچھ چھلیاں جن کو مقامی زبان میں سِٹیاں کہتے ہیں وہ عطا کیں اور ہم بعد از مغرب واپس گھر پہنچے،
ہفتہ کے دن صبح نو بجے واپسی کا سفر شروع کیا، راستے میں کسی بریک کے بغیر اسلام آباد 26 نمبر سٹینڈ پہنچا، موٹر سائیکل بس کی ڈگی میں رکھی، خود بس کے اندر بیٹھا اور شام چار بجے فیصل آباد کی سمت روانہ ہوگیا۔ رات دس بجے گھر پہنچا، ماں کی چاہت بھری دعاؤں نے استقبال کیا، بھابیاں، بچے، بہنیں، بھائی سب استقبال کے لیے پہلے ہی جمع تھے کیونکہ کل اتوار تھا اور بچہ پارٹی کو مخبری ہوگئی تھی کہ تایا صاحب واپس پہنچ رہے ہیں اور خالی ہاتھ آتے نہیں۔ کھلونے لیکر بچہ جتنا خوش تھے وہ منظر بیان نہیں کر سکتا، پہاڑوں اور وادیوں کا حسن جیسے ان معصوموں کے قہقہوں میں سمٹ آیا تھا۔ |
|