"وزیر اعلی کو اڈیالہ سے فرصت نہیں، ڈینگی مچھر روز سلامی دیتا ہے"


خیبرپختونخوا میں ان دنوں دو ہی چیزیں تیزی سے پھیل رہی ہیں — ایک سیاست دانوں کی پریس کانفرنسیں، اور دوسری ڈینگی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پریس کانفرنس میں لوگ خود جاتے ہیں، جبکہ ڈینگی آپ کے گھر خود تشریف لے آتا ہے۔ بندہ بس پنکھا چلا کر سوئے تو مچھر صاحب کان میں آ کر فرماتے ہیں: “جناب، حکومت نے ہمارے لیے بھی کوئی روک ٹوک نہیں رکھی، ہم بھی شہری ہیں، ہم بھی جئیں گے!”یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جب پشاور کے شہری مچھر دانی میں چھپ رہے ہوتے ہیں، ہمارے محترم وزیر اعلیٰ صاحب کہیں اڈیالہ روڈ کے قریب حالات کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ سنا ہے وہاں بھی بڑی سرگرمی ہے، مگر فرق صرف یہ ہے کہ وہاں قیدی باہر نہیں جا سکتے اور یہاں عوام اندر چین سے نہیں سو سکتے۔

اب اگر کسی دن وزیر اعلیٰ صاحب کو اڈیالہ سے فرصت مل جائے تو شاید وہ یہ بھی دیکھ لیں کہ خیبرپختونخوا میں ڈینگی صرف مچھر نہیں رہا، ایک باقاعدہ حکومت مخالف قوت بن گیا ہے۔ محکم? صحت کہتا ہے “فنڈز تھے”، خزانہ کہتا ہے “فنڈز تھے”، مگر عوام کہتی ہے “ڈینگی بھی تھا”۔ اور آخر میں پتا چلا کہ فنڈز تو تھے، مگر استعمال نہ ہوئے اور لیپس ہوگئے۔ یعنی مچھر تو خون چوستا ہے، مگر یہاں فنڈز کے محافظ خواب چوس کر سو گئے۔ 45 کروڑ روپے کا بجٹ تھا۔ کسی نے اسپرے خریدنا تھا، کسی نے دوا، کسی نے شاید رپورٹس بنانی تھیں۔ مگر ہوا یہ کہ اسپرے تو نہ ہوا، البتہ کاغذوں پر سب کچھ چھڑک دیا گیا۔ نتیجہ؟ اس سال ڈینگی نے وہ ریکارڈ توڑ دیا جو پہلے کسی کرکٹر نے بھی نہیں توڑا۔ روز کوئی نہ کوئی اطلاع آتی ہے کہ فلاں علاقے میں مچھر نے ہیٹ ٹرک مکمل کر لی۔

ڈینگی کا یہ عالم ہے کہ اب شہریوں نے اسے مقامی سیاست میں شامل کر لیا ہے۔ محفلوں میں لوگ پوچھتے ہیں، “آپ کے حلقے میں ڈینگی کس پارٹی کا ہے؟” ایک بزرگ نے تو جواب دیا، “ہمارا ڈینگی آزاد حیثیت میں آیا تھا، مگر اب لگتا ہے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ہی اڈیالہ شفٹ ہو جائے گا۔” پشاور، مردان، نوشہرہ، صوابی، ہر جگہ حالات یہی ہیں۔ اسپرے ٹیمیں شاید کہیں ویڈیو گیم کھیلنے میں مصروف ہیں، کیونکہ شہر میں اسپرے کے نشان تو کیا، اسپرے کی خوشبو تک نہیں ملی۔ جنہیں حکومت نے “انسداد ڈینگی مہم” پر تعینات کیا تھا، وہ خود گھروں میں مچھر مار بتی کے دھوئیں میں غائب ہیں۔اب عوام بھی سمجھدار ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: “ڈینگی کا علاج حکومت سے نہیں، پنکھے سے ہے۔”پنکھا بھی بیچارہ کب تک اڑاتا رہے؟ آخرکار وہ بھی بلبلا کر بند ہو جاتا ہے، پھر ڈینگی صاحب پورے وقار سے حملہ آور ہوتے ہیں۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ احتیاط کریں، مگر احتیاط کیسے ہو جب اسپتالوں میں بیڈ کم، مریض زیادہ، اور مچھر برابر تعداد میں موجود ہوں۔ کئی مریضوں نے تو شکایت کی ہے کہ اسپتال کے اندر بھی ڈینگی کے رشتہ دار گھوم رہے ہیں۔ یعنی مریض اگر علاج کے لیے جائے تو ڈینگی کہتا ہے، “واہ، خود چل کر ہمارے پاس آ گیا!” سیاست دانوں کا حال پوچھیے تو وہ کہتے ہیں، “یہ سب پچھلی حکومت کا قصور ہے۔” پچھلی حکومت کہتی ہے، “ہم نے تو فنڈز رکھے تھے، موجودہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔” عوام کہتی ہے، “ہم نے تو ووٹ دیا تھا، ڈینگی کو نہیں۔” ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں اب ہر مسئلہ الیکشن کمیشن کے دفتر سے ہو کر ہی حل ہو گا — مچھر بھی شاید اگلے انتخابات میں امیدوار بن جائیں۔

اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ 45 کروڑ کے فنڈز لیپس کیوں ہوئے، تو جواب ملتا ہے، “فائل وزیر اعلیٰ صاحب کے دستخط کے انتظار میں تھی۔” اور وزیر اعلیٰ کہاں تھے؟ جی ہاں، اڈیالہ کے آس پاس کہیں۔ شاید وہ وہاں “اڈیالہ ڈینگی کنٹرول اتھارٹی” قائم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں۔ خیر، عوام نے اب اپنے طور پر انتظام کر لیا ہے۔ ہر گلی میں ایک “ڈینگی کمیٹی” بن گئی ہے جو پنکھا، لوشن، اور دعا سے مچھر کو بھگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کچھ نوجوانوں نے تو اسپرے کی جگہ موبائل فلیش لائٹ استعمال کرنا شروع کر دی ہے، شاید روشنی سے مچھر شرما جائے۔ لیکن نہیں، یہ خیبرپختونخوا کا مچھر ہے، شرم سے نہیں، صرف اسپرے سے مرتا ہے — جو کہ ہوا ہی نہیں۔

ایک دوست نے کہا، “یار، حکومت اگر واقعی مخلص ہے تو وزیر اعلیٰ کو ایک رات پشاور کے کسی مچھر زدہ محلے میں گزارنے کا کہو۔ اگلی صبح یا تو مچھر مار دیے جائیں گے یا وزیر اعلیٰ اگلا بجٹ خود اسپرے کی بوتلوں کے نام کر دیں گے۔”مگر شاید ایسا ہونا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی منصوبے کا وقت پر مکمل ہونا۔دوسری طرف محکمہ اطلاعات کا کہنا ہے کہ “صورتحال قابو میں ہے۔” واقعی، بس فرق یہ ہے کہ قابو میں عوام ہیں، ڈینگی نہیں۔ اور اگر آپ کو یقین نہ آئے تو کسی اسپتال جا کر دیکھ لیجیے، جہاں ہر بیڈ پر دو مریض، اور ایک مچھر تیسرا شریکِ بستر ہے۔

یہ قوم بڑی صابر ہے۔ جو لوگ مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور سیاست دانوں کی وعدہ خلافیوں سے نہیں ڈرے، وہ ڈینگی سے بھی نہیں ڈریں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سیاست دان پانچ سال بعد دوبارہ آتے ہیں، ڈینگی ہر سال موسم کے ساتھ نیا منشور لے آتا ہے۔ آخر میں یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ وزیر اعلیٰ صاحب کو اڈیالہ سے کچھ وقت کے لیے فراغت عطا فرمائے تاکہ وہ کم از کم ڈینگی کے خلاف ایک میٹنگ ہی کر لیں۔ورنہ عوام اگلے بجٹ میں مطالبہ کریں گے کہ “ڈینگی کو سرکاری علامت” قرار دیا جائے، کیونکہ اس کی کارکردگی حکومت سے بہتر ہے — وقت پر آتا ہے، کام کرتا ہے، اور کسی سے حکم نہیں لیتا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 841 Articles with 689634 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More